بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات ایک سنگین انسانی المیہ بنتے جا رہے ہیں، ناکافی انفراسٹرکچر، سنگل لین شاہراہیں، ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کی کمی اور طویل فاصلے بلوچستان بھر میں حادثات کی بڑی وجوہات قرار دی جارہی ہیں۔
سال 2021 سے 2025 تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچستان کی سڑکیں مسلسل جان لیوا بنتی جارہی ہیں۔
سال 2025 حادثات کی بلند ترین سطح
رواں سال 2025 کے دوران بلوچستان کی سات قومی شاہراہوں اور ایم-8 موٹر وے پر 24 ہزار 482 ٹریفک حادثات پیش آئے، ان حادثات میں 415 افراد جانبحق جبکہ 30 ہزار 66 مسافر زخمی ہوئے۔
یہ اعداد و شمار گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ این-25 مسلسل حادثات کے باعث عوام میں ’’خونی شاہراہ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، سنگل روڈ، تیز رفتار ٹریفک اور طویل سفر کے باعث اس شاہراہ پر آئے روز ہلاکت خیز حادثات پیش آرہے ہیں۔
اسی طرح کوئٹہ کو اسلام آباد سے ملانے والی قومی شاہراہ این-50 سال 2025 میں حادثات کے اعتبار سے سرفہرست رہی، جہاں 7 ہزار 647 حادثات میں 56 افراد جانبحق اور 6 ہزار 944 زخمی ہوئے۔
گزشتہ پانچ سال کا مجموعی رجحان (2021–2025)
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے، سال 2021–2022 کے حادثات کی تعداد نسبتاً کم رہی، تاہم اموات کا تناسب بدستور تشویشناک رہا، سال 2023 میں قومی شاہراہوں پر ٹریفک دباؤ میں اضافے کے باعث حادثات میں نمایاں اضافہ ہوا۔
مزید سال 2024 سنگل لینی شاہراہوں اور خراب سڑکوں کے باعث حادثات میں مزید شدت آئی، تاہم اس سال 2025 میں حادثات، اموات اور زخمیوں کی تعداد گزشتہ پانچ برسوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
پانچ سالہ مجموعی جائزے کے مطابق بلوچستان میں دسیوں ہزار حادثات کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ایک لاکھ سے زائد شہری زخمی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
حادثات میں زخمی ہونے والوں کو فوری امداد فراہم کرنے کے لیے ریسکیو 1122 نے صرف سال 2025 کے دوران 2 ہزار 986 او پی ڈیز کا انعقاد کیا، ریسکیو حکام کے مطابق دور دراز علاقوں، لمبے فاصلے اور محدود وسائل کے باعث بروقت رسپانس ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
ٹریفک اور انفراسٹرکچر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی بیشتر قومی شاہراہیں سنگل لینی اور سڑکوں کی حالت خستہ ہے، رفتار کی نگرانی اور ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے اگر فوری طور پر ان مسائل کا حل نہ نکالا گیا تو آئندہ برسوں میں حادثات اور اموات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
شہریوں، ٹرانسپورٹرز اور سماجی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کوئٹہ-کراچی این-25 سمیت تمام قومی شاہراہوں کو دو رویہ بناکر سڑکوں کی مرمت اور بہتری کو ترجیح دی جائے اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کراتے ہوئے ریسکیو اور ایمرجنسی سہولیات کو مزید مؤثر بنایا جائے۔
بلوچستان میں ٹریفک حادثات اب محض واقعات نہیں رہے بلکہ ایک مسلسل انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، اگر بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو قومی شاہراہیں مزید قیمتی جانیں نگلتی رہیں گی۔
عوام کی نظریں حکومتی اقدامات پر جمی ہوئی ہیں کہ آیا اس بڑھتے ہوئے المیے کو روکا جا سکے گا یا نہیں۔















































