کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

17

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کی قیادت میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5861 دن مکمل ہو گئے، کراچی ملیر سے سیاسی و سماجی کارکنان نوربخش بلوچ، گزین بلوچ و دیگر نے کیمپ آ کر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

کیمپ آئے وفد سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج بہت سے بلوچ مخبر میر و معتبروں کی مدد سے بلوچ سیاسی تنظیموں کے لیڈروں اور کارکنان کو جبری اغوا کرکے ان کو اذیت دینے کے بعد شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتی رہی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا یہ عمل پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو سستا پڑ رہا ہے یعنی فوجی ساز و سامان، تیل، جہاز اور دیگر مشینری کے کم استعمال سے یہ کام انجام دیا جا رہا ہے اسی لیے پاکستانی فوج آپریشنز کے بجائے ٹارگیٹڈ ایکشن یعنی اُٹھاؤ، مارو، پھینکو کی پالیسی پر گامزن رہی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ بڑی آپریشن کی صورت میں شاید عالمی برادری پاکستان پر اعتراض کرے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ مکران کے علاوہ بلیدہ، زامران، تمپ، بالگتر، ہوشاپ، پسنی، آواران، اور مشکے میں فورسز کے چھاپے آپریشن اور پھر ہیلی کاپٹروں سے بمباری بلوچوں کو شہید کرنے اور ناجائز جبری لاپتہ کرنے کے واقعات ہوئے ہیں ریاستی فورسز کو مکمل چھوٹ اور دیدہ دلیری کے ساتھ بلوچوں کے خلاف محاذ کھولنے کی اجازت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا ہرنائی، چمالنگ، بہلول، اور چاب میں بلوچوں کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشن شروع کیا گیا ہے اُدھر قلات کے گرد و نواح میں حالیہ دس روز سے F-16 اور چینی ساختہ جنگی جہاز، میزائل استعمال کررہے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا جہاں تک بلوچستان کی بات ہے تو بلوچستان کی تحریک اور بلوچ قوم کے سیاسی، معاشی، عدل و انصاف پر مبنی نظام کے لیے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں جبکہ ہزاروں ریاستی اداروں کے اذیت گاہوں میں پابند سلاسل رکھے گئے ہیں پوری دنیا اور اقوام کو اب ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔