تاریخی غلطیاں – ٹی بی پی اداریہ

32

تاریخی غلطیاں

ٹی بی پی اداریہ

سترہ جنوری کی شام حب چوکی میں بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن (25 جنوری) کو دالبندین میں منعقد ہونے والے جلسے کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آگاہی مہم جاری تھی۔ اسی دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما، سمی دین بلوچ پر مسلح حملے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجے میں دو مشکوک افراد گرفتار ہوئے۔ ان کے قبضے سے اسلحہ، شناختی کارڈز اور پروفائلنگ کے لیے مظاہرین کی ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئیں۔ ان افراد کا تعلق پاکستانی خفیہ اداروں سے بتایا جاتا ہے۔

اس سے قبل گوادر میں بلوچ راجی مچی کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پر حملے کی کوشش کی گئی تھی، جس میں ملٹری انٹیلیجنس کے ایک کارندے کو گرفتار کیا گیا۔

پاکستان کی مقتدر قوتیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ریاستی جبر اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے جیسے جائز مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے، بلوچ رہنماؤں پر مسلسل ایف آئی آر درج کرکے، پرامن اجتماعات پر لاٹھی چارج اور بلوچ خواتین کی گرفتاری جیسے ہتھکنڈے اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ تمام اقدامات تحریک کو دبانے کی ناکام کوششیں ہیں۔

پاکستان کے پالیسی ساز بار بار تاریخی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بلوچ رہنماؤں کی گرفتاریوں یا انہیں نقصان پہنچانے سے بلوچ قومی تحریک کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ ماضی میں بلوچ رہنماؤں کے قتل سے یہ تحریک دب سکی، اور نہ ہی اب ایسے ہتھکنڈے اسے ختم کر سکیں گے۔

پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ بلوچوں کو وہاں سے ماریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ لیکن بلوچستان میں فوجی جارحیت، جبری گمشدگیوں، قتل عام اور ریاستی مظالم کے باوجود، دو دہائیوں سے بلوچوں کی آزادی کی جدوجہد نہ صرف جاری ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس میں مزید شدت اور جدت آ چکی ہے۔

پاکستان کے مقتدر ادارے تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے انہیں دہرانے میں مصروف ہیں، اور یہ رویہ ریاست کے لیے نہایت بھیانک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔