یہ عوامی سمندر ایک ریفرنڈم ہے ۔ پروفیسر منظور بلوچ کا کوئٹہ جلسے میں خطاب

347

ہفتے کے روز کوئٹہ کے علاقے کیچی بیگ میں شاہوانی اسٹیڈیم میں بلوچ نسل کشی کے خلاف قومی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر منظور بلوچ نے کہاکہ ہم آپ کو یہ بتانے آئے ہیں کہ ہم پاکستان سے ہوکر قہار عبداللہ خان، محراب خان، خان عبدالغفار ،نوری نصیر خان کی دیس میں واپس آئے ہیں اس جذبہ کو سلام کرنے جس نے ماؤں، بہنوں کو ہمت دی۔

انہوں نے کہاکہ جب نواب بگٹی کو شہید کیا گیا عوامی لہر اٹھا تو خضدار و پنجگور کو کربلا بنا گیا۔ مشکے میں بمباری کی گئی ۔اسی طرح مختلف علاقوں کو بلوچوں کے لئے رہنے کا قابل نہیں بنایا گیا ۔

انکا کہنا تھاکہ اس وقت جب خضدار میں ڈیٹھ اسکواڈ بنائے گئے جب دو دو ، تین تین بھائیوں کو شہید کیا جاتا تو لوگ خوف سے انکا نام نہیں لے سکتے کوئی فاتحہ خوانی نہیں کرسکتا تھا لیکن آج خضدار بیدار ہے ۔

منظور بلوچ نے کہاکہ ہم ضرور اسلام آباد گئے ،لیکن بقول نواب بگٹی کے وہاں نہ اسلام ہے نہ آباد ہے۔ ہم نے وہاں جو کچھ دیکھا وہ آپکے سامنے رکھیں گے۔ جس روز وہاں سیمنار رکھا گیا خار دار تاریں لگائی گئی، کسی کو اندر آنے جانے نہیں دیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ جو سلوک ہوا۔ ہم نے کہا ہم ٹیچرز ، پروفیسر ، وکلا ہیں ، ایس ایچ او کے آنکھوں میں نفرت تھا ہمیں پیغام دیا گیا کہ آپ غلام ہو ، آپ ٹیچرز، پروفیسر ہو تو کیا ہوا طاقت تو ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ بندوق ہمارے پاس ہے۔ بلوچ دھرتی کے کیڑے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ مجھے افسوس ہوتا ہے جو اصل پاکستان ہے وہاں کوئی جھنڈا اور پوسٹر نہیں لیکن جب ہم غلام سرزمین پر آئے تو یہاں جھنڈیاں پوسٹر اور الیکشن تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا جب ہزاروں خاندان اجتماعی سزا سے گزر رہے ہیں ہمارے ہزاروں لوگ انکے عقوبت خانوں میں ہیں تو پھر کیسا الیکشن ، کیسی جمہوریت ، کس کے لئے جمہوریت ؟

انہوں نے مزید کہاکہ جن پاؤں میں چپل نہیں تھے انکو کروڑ پتی بنایا گیا۔ بلوچستان کے نام پر اربوں روپے کھائے، بڑے مسائلوں کو چھوڑیں، آج تک اس اسمبلی میں بجلی، نلکہ پانی بے روزگاری مسلہ حل نہیں ہوسکا ، ایک ایم پی اے کو سولہ ارب ملے ، لیکن افسوس پاکستان کو پالنے والے بلوچستان کا نوجوان کو خاک روب کا نوکری دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ جنگ صرف لاپتہ افراد کا نہیں لاپتہ حقوق کا بھی ہے۔ عوام کا ٹھٹیں مارتا سمندر ایک ریفرنڈم ہے ۔ ہم کچھ بھولے حساب کتاب کرینگے۔ ایک ایک لمحہ، درد ، پائی کا حساب ہوگا۔ اور وہ روز قریب ہے۔ ہمیں ماؤں کے درد، شہیدوں کی قربانیاں اور زندوں میں فرزندوں کے کہانیاں لکھنے ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ آج تونسہ سے لیاری تک بلوچ کھڑاہے ہمیں کوئی مراعات پیسہ نہیں چاہیے ہمارے دو مطالبات ہیں قومی بقا اور لاپتہ افراد۔

انہوں نے کہاکہ اس تحریک کا پانچواں دور ہے جو جنگ دو ہزار میں مسلط ہوا آج چوبیس سالوں سے جاری ہے، ہمارے نوجوانوں کی آنکھیں نکالی گئی، زندہ جلائے گئے ، لیکن بلوچ نہیں ٹوٹا ۔یہ خیر بخش مری کی سرزمین ہے۔ کوہ چلتن کے دامن میں آسودہ خاک خیر بخش آج تمہیں دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اس تحریک کا آرکیٹیکٹ نواب مری ہے ۔ہمیں اتحاد قائم کرنا ہے اگر یہ جنگ جیتنا ہے تو ہمیں پڑھنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ نے جنگ کے میدان میں کبھی شکست نہیں کھایا ہمیں ٹیبل پر جنگ جیتنا ہے۔ مزاحمت کرنا ہوگا ۔ ہمارے وسائل لوٹے جارہے ہیں۔