نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (آٹھواں حصہ) ۔ عمران بلوچ

408

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
(آٹھواں حصہ)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دراصل بنیادی اینٹ ہی غلط رکھا گیا ہو تو بہتر پیداوار کیسے آسکتا ہے اول تو ایک دو کونسل سیشن کو چھوڑ کر اور ایک آدھے چیئرمین کے سوائے باقی پوری تاریخ میں تمام چیئرمین اور کونسلر منتخب کردہ نہیں ہیں ، بہت سے طالبعلم ہی نہ رہے ہیں یا پھر کالج اور یونیورسٹی دیکھا تک نہیں ہے دلچسپ بات ہے کہ بی این پی نے اپنے ونگ کے جتنے بھی چیئرمین منتخب کئے ہیں وہ سارے اس کے خلاف گئے ہیں یقیناً اس کا مطلب یہ ہیکہ کونسل اپنا نمائندہ ان سے بہتر جانتا اور منتخب کر سکتا ہے اس معاملے میں این پی نے چیرمینوں کو زیادہ متاثر کیا ہے فرق مراعات ٹیکوں کا ملنا نوکری ٹرانسفر پوسٹنگ پروجیکٹس اور گوادر پلاٹیں ہیں۔

ایکس کیڈر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سی پیک کے نقصانات بتاتے نہیں تھکتے اور سابق حکومت میں ان کے نام گوادر میں سیاسی رشوت کے طور پلاٹیں نکلی تھی اس کے علاوہ ایسے بھی سابق نمائندے موجود ہیں جو بلوچ قوم کو افغان مہاجرین کی وجہ سے اقلیت میں جاتا دیکھتے ہیں دوسری جانب ان پر افغان مہاجرین کو نوشکی میں شناختی کارڈز دلانے اور بھاری رقم لینے کا الزام ہے اور ان کے اس عمل کے خلاف ان کے اتحادی بی ایس او کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل نے احتجاجاً اس عمل کے خلاف استعفی بھی دیا تھا مطلب اس ایکس کیڈر کے کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاو گے تحریک کے نام پر لیپ ٹاپ سے لیکر اور کیا کیا ہضم نہ کیا گیا اور ڈکار بھی نہیں لیا۔

خیر بات ہو رہی تھی ایکس کیڈر کے بننے کی تو چیئرمین موصوف اس وقت اس بنیاد پر بی ایس او کے چیئرمین مکمل حادثاتی طور پرسلیکٹ کئے گئے تھے کہ چیئرمین شپ کے لئے جس شخص کو سلیکٹ کرنا تھا پارٹی کو پتا چلا کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا مینگل والوں کے ساتھ ہے تو اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ ونگ اور پارٹی کے لئے نقصاندہ ہوسکتا تھا تب ترہ امتیاز چیئرمین صاحب کو ملا ویسے بات کرتے ہیں اتحاد و قومی یکجہتی کی اور عمل ہے قومی تقسیم در تقسیم کا جی آپس میں بیٹھتے کیوں ہیں؟

یہ بیماری آج بھی بی ایس او میں پایا جاتا ہے خیر چیئرمین صاحب تو پارٹی سے فارغ کئے گئے مگر موجودہ ادوار میں پارٹی سے لیکر ایکس کیڈر گروپ میں ان کے اس وقت کے حریف نے ہر جگہ ان کی پوزیشن لے لی ہے اور پارٹی کا زیادہ بااعتماد ٹہرا ہے اس کے علاوہ ایکس کیڈرز کی میزبانی کا شرف انھیں زیادہ نصیب ہوا ہے اسی لئے اولی کوئٹہ ہوٹل اجلاس میں ان سمیت سب کا فوکس یہی تھا کہ موجودہ تحریک بلوچ کے حق میں نہیں ہے اسے کونٹر کرنا ہے اس تحریک کی وجہ سے ہماری سیاست رکھی ہوئی ہے لہذا نوجوانوں پر زیادہ توجہ دینی ہے ویسے سرکار سے لیکر ان پارلیمانی پارٹیاں بلوچستان وائسز اور ایکس کیڈرز سب کا فوکس بلوچ نوجوان ہی ہیں کہ جی انھیں روکنا اور سیاست سے دور کرنا ہے تحریک کو کونٹر کرنا ہے ایکس کیڈرز کے ابتدائی دو اجلاسوں کے مول و مراد ایجنڈہ بس یہی رہے ہیں یقینا آگے بھی اس سے مختلف نہیں ہونگے۔

اور یہ کہ پارٹیوں میں ہمیں عزت اور مراعات نہیں ملتے ہمارے خدمات نہیں لئے جاتے لہذا پاور شو کرکے ان پارٹیوں کو ڈرانا اور ٹیکہ نوکری ٹکٹ وغیرہ لینا ہے بی این پی عوامی سے اسی لئے نکالے گئے کہ جی کونسل اور پھر پارٹی پر قبضہ کرنا ہے مگر انھوں نے یہ کہہ کر نکال دیا کہ یہ بی ایس او نہیں پارٹی ہے، پھر اس دوران ایک سابق بیوروکریٹ اپنے دوستوں کے ساتھ ان سے ان ملا کہ جی اپنی پارٹی اور بی ایس او بناتے ہیں پھر لفٹ رائیٹ سرخ و سفید کھیلتے ہیں مگر ظاہر ہے پروگرام نہ ہو مقصدیت پر مراعات حاوی ہوں کردار وعمل باقی نہ بچے تو قوم اعتبار نہیں کرتی اور جب کوئی قومی اعتبار کھو دے تو وہ کیسے سیاست کرسکتا ہے؟ اب ان حضرات کا حافظہ کمزور ہوسکتا ہے پر قوم کا نہیں۔

یہاں سے اور بالائی بیان کردہ معاملات کی بنیاد پر سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ایکس کیڈرز کا جو تحریک کے خلاف کام کرنے بلوچ نوجوانوں کو بہکانے سیاست کو محدود کرکے ایک اور جانب دھکیل کر مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے اپنی قیمت لگانے خاص کر نوجوانوں پر فوکس کرنے سے شروع ہوا ہے اب یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کوئی سوشل میڈیا پر پارٹی شمولیت کا سوال کرے اور وہ پہلے ہی درجن بھر پارٹیاں بدل چکا ہو یا نکالا جا چکا ہو تو ایسے رائے لینے کا مطلب یہ ہےکہ اس نے زاتی زندگی ہو پھر چاہیے سیاسی زندگی دونوں سے کچھ نہیں سیکھا، اسے سیاست نظریہ سیاسی پروگرام کا کچھ نہیں معلوم ماسوائے چند زاتی قصوں اور کہانیوں کے اسی لئے یہ آج بھی کہتے نہیں تھکتے کہ جی بس ہمارا دور ، ابھی بھی خلیل جبران, ثور انقلاب ابراہم لنکن کی سنی سنائی باتوں پر گزارا کر لیتے ہوئے اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ شاید قوم اور بلخصوص بلوچ نوجوان ان کی طرح یا ان جیسا سوچتے ہیں، انقلابی اور رد انقلابی کے فرق کو بلوچ قوم ، بلوچ نوجوان اچھے سے جانتے ہیں۔

اب جس کی زندگی بھر کی سیاست سول سیکٹریٹ تک محدود ہو اسے ہوا کے رخ کا کیا پتا؟ ہوا کی تپش اور گہرائی کا کیا معلوم؟ اپنے ڈر اور چاپلوسی کو سیاست کا نام دینا اور سمجھنا قوم و نوجوان اس سے متاثر ہونگے تو حافضے اور وژن کو علاج کی ضرورت ہے بی ایس او کے اولی چیئرمین کے دعویدار سے لیکر آخری ایکس کیڈر تک مرتے دم سول سیکٹریٹ یاترا پر گزری ،ایسا بھی نہیں کہ یہ وہاں ملازم ہوں یا اسمبلی ممبر ہوں پھر وجہ کیا ہوگی ماسوائے پیداگیریت کے، پھر سیاسی تجزئے اور معلومات بھی وہی سیکٹریٹ والے جسے یہ دانشوری کا نام دیتے ہیں۔

پانچ سے چھ سلیکٹڈ چیئرمین کو پارلیمانی پارٹیوں اور تنظیموں سے نکالے جانے کے بعد سب بے روزگار ہوجاتے ہیں تب ریٹائرڈ بیوروکریٹ ان سے مل جاتا ہے جو انھیں دنوں اپنی سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد فراغت کا سامان ڈھونڈنے نکلتا ہے اس طرح یہ سارے اپنی لابی بنانے نکلتے ہیں کہ شاید ان کی تعداد کو دیکھ کوئی پارٹی انھیں شمولیت کی دعوت دے بات وہی پر آکر رکتی ہے سارے ایک ہی حمام میں ننگے ایک دوسرے کے عادات خواہشات مزاج اور لالچ سے واقف اب دعوت دے تو کون ؟ یا کیچن کیبنٹ بناہیں تو باہمی اعتماد کا فقدان کے یاد ماضی عزاب ہے، لہذا سیاسی پارٹی بنانے کا خیال زاتی پارٹی بنانے کی صورت نکلا ویسے بھی بلوچستان میں یک فردی پارٹیاں ہو یا اتوار بازار کی طرح سنڈے پارٹیاں بنانا بہت آسان ہے ،ظاہر ہے سیاسی پارٹی انھوں نے نہ کھبی بنانا تھا نہ ان کی یہ خواہش تھی البتہ کوشش یہ تھی کہ آو ہمیں شمولیت کی دعوت دو ہم تیار ہیں، باوجود اس کے کہ ان کی تعداد انتہائی قلیل ، مختلف الخیال ، ماضی کے تجربوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر بھروسے کا فقدان، قوم نے اولین پروگرام میں شرکت نہ کرکے انھیں مسترد کردیا تھا پر انھیں قوم و قومی مسائل سے کیا غرض؟۔اس انتہائی کثیر تعداد میں بھی اکثریت کا جھکاو پہلے سے ہی این پی کی طرف تھا ماسوائے ان کے جنھیں این پی سے نکالا گیا تھا، لہذا ملاقاتیں، دعوتیں سب اس طرف تھیں، دلچسپ صورتحال یہ تھی کہ ان کے پاس موضوع کی حد تک بھی کوئی خاص اور نیا سیاسی پروگرام ہی نہیں تھا کہ جسے یہ قوم بلخصوص نوجوانوں کے سامنے رکھتے ، آج کا بلوچستان نیو ورلڈ آرڈر کا ایپی سینٹر ہے، آج ہم ایک وار زون میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے تمام سامراجی طاقتوں کی نظریں بلوچ و بلوچستان پر لگی ہوئی ہیں پر یہ کالے انگریز کے ایجنٹ قوم کا سودا کالے انگریز سے کیسے لگا سکتے ہیں، یہ لاشیں ، مسنگ پرسنز اس لیے نہیں کہ کوئی بھی اپنی دکان سجالے بلوچ قوم اور نوجوان ایسا کیسے ہونے دینگے؟

آج کے بلوچستان پر سب کی نظریں جمی ہیں اسی لئے ہر ایک نے پہلے ہی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنالی ہے اور اپنا قبلہ چن کر جائے نماز بھی بچھا چکا ہے تبھی یہاں ہر طرح کی پارٹی، تنظیم اور معاملات کو غلط رخ دینے کے لیے پروگرام ترتیب دئیے گئے ہیں، لہذا ان ایکس کیڈرز کے پاس نہ کوئی قومی سیاسی پروگرام تھا اور نہ کوئی سیاسی پروگرام ہے۔نہ کوئی پروگرام ہو سکتا تھا اور نہ ان کی یہ خواہش تھی۔خواہش تھی بھی تو بس اتنا کہ کوئی بھی پارلیمانی پارٹی انھیں بھرتی کرے۔
جاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔