مایوسی یا کمزور لیڈرشپ ۔ درویش بلوچ

457

مایوسی یا کمزور لیڈرشپ

تحریر: درویش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جہاں مجھے بچپن میں ہی بتایا گیا تھا کہ کس طرح پاکستان بلوچستان میں نسل کُشی کر رہی ہے اور مجھ میں ہر وقت ایک نفرت زور پکڑ رہی تھی جو کبھی بھی مجھے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ ہر وقت میں سوچتا تھا کہ ایک دن آۓ گا جب ہم آزاد ہونگے اور ہر ایک خون کے قطرے کا حساب لینگے۔اسی طرح میں نے اپنا میٹرک پاس کیا اور فرسٹ ائیر کے لیے ایڈمیشن لیا۔اسی دوران میری ملاقات ایک نیک شخص سے ہوئی جس نے میرا ہاتھ تھاما اور میری تربیت کی اور کچھ وقت بعد ایک یونٹ بنایا گیا اور مجھے جنرل سیکٹری منتخب کیا گیا ۔اور میں دل لگا کر نۓ دوستوں سے ملتا اور اُن کو اپنے بلوچستان پر ہونے والے ظلم جبر کے بارے میں بتاتا اور ان دوستوں کو کتاب دیتا تاکہ وہ خود پڑھ کر حقیقت سے آشنا ہوسکیں کہ کس طرح پاکستان نے ہم پر جبری قبضہ کیا اور ہمارے لیڈران کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی کس طرح ہمارے پیاروں کو نظر زندان کیا جو کئی سالوں سے انکے ظلم سہہ رہے ہیں اور خود بھی کتابیں پڑھتا۔ اِسی طرح میرے ناۓ دوست بنے جن میں کچھ بہت زیادہ پڑھتے تھے اور دوسروں کو بتاتے اور سرکلز دیتے میں بہت خوش تھا کہ میری تربیت ہوئی اور میرے دوست دوسرے لوگوں کی اور اپنی تربیت کر رہے ہیں ۔ وقت چلتا رہا اور یہ کاروان زور پکڑتا گیا ڈیڑہ سال بعد مجھے یونٹ سے نکلنا پڑا اور ناۓ دوستوں کو آ گے لایا گیا اور اُس وقت میں خوش بھی تھا اور غمگین بھی ۔ اب کیونکہ انسان کے اندر جاننے کے لیے تجسس زیادہ ہوتی ہے اسی طرح میرے اندر بھی اب تجسس بڑھ چُکی تھی اور میں اب مسلح جہدوجہد کے بارے پڑھتا اور دوستوں سے ان کی بارے میں گفتگو کرتا اور ہمارے گفتگو سے ایسا لگتا جیسے سب میری طرح شعوری طور پر جنگ کا سوچ رہے ہیں۔

خیر میں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور میں ڈھونڈنے لگا کہ کوئی تو ہوگا جو مجھے ان سب کے بارے میں بتاۓ گا۔ تو اِسی دوران وہی نیک شخص پھر مجھ سے ملا اور کہا سنگت سُناو کیسے ہو ؟ میں نہ کہا سنگت بس آپ کی دعا چاہیے تو سنگت نے کہا آجکل گم ہو نظر نہیں آتے خیر تو ہے یونٹ چھوڑنے کے بعد تھک تو نہیں گئے میں نے مُسکراتے ہوۓ کہا سنگت تھکے ہمارے دشمن ہمیں یہ مائیں جن کے بیٹوں کو اُن کے سامنے اُن کے دوپٹوں سے باندھ کر مار دیتے ہیں اور زاکر جان اور ہزاروں شہیدوں کے ماؤں کا حوصلہ کیسے تھکنے دینگے۔ تو اُس نے کہاں پھر اب کیا خیال ہے آگے کیا کرنا ہے؟ تو میں نے کہا سنگت بس یونیورسٹی میں داخلہ لونگا اور آگے دیکھوں گا۔ تو سنگت نے کہا کبھی ٹائم نکالو مل کر گفتگو کریں گے میں نے کہا جُوان سنگت لازم۔

کچھ دن بعد سنگت کا میسج آیا اور مجھے کہا کہاں ہو تو میں نے بتایا میں گھر میں ہوں تو سنگت نے کہا میں آ رہا ہوں مل کر چاۓ پیتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد سنگت آیا تو چاۓ پیتے ھوۓ سنگت نے پوچھا بی ایس او (آزاد) کے بارے میں کچھ جانتے ہو تو میں نے کہا جی بلکل آج اُسی تنظیم کی قربانیوں کی وجہ سے بلوچ کا بچہ بچہ قربان ھونے کے لیے تیار ہے۔ تو سنگت نے کہا تم بی ایس او (آزاد )میں ممبر شپ لو گے ۔ تو میں کہا میرے لیے فخر کی بات ہوگی میں بہت زیادہ خوش تھا اور میں نے اپنا ایک فرضی نام بھی رکھ لیا ۔کچھ دن بعد میں نے باقاعدہ بی ایس او کے کاموں میں حصہ لیا اور مجھے یہاں بہت سے نۓ دوست ملے جن سے میں ڈسکشن کر کے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ تقریباً کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اب میں مکمل طور پر چیزوں کو سمجھ چُکا تھا تو عین اسی دوران ہمارے کچھ مسائل پیدا ہو گۓ اور مسائل بڑھ کر گروپنگ کی شکل اختیار کرنے لگے اور بات بڑھتی گئی اور دوست ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔اسی دوران ہمارے کچھ ساتھیوں نے مجھ سمیت تنظیم کو الوداع کہا اور سائیڈ پر ھوگۓ۔

اب آپ بھی سوچ رہے ہونگے آیا کہ یہ سب کیوں ہوا تو اُس کی سب سے بڑی وجہ نام تھی نام یعنی جو دوست فرنٹ پر تھے اُن کو اب سیاست میں مزا آچکا تھا اور وہ دوسروں کو ایکسیپٹ ہی نہیں کر رہے تھے ۔ اب میں پورے تنظیم کی بات نہیں کررھا بلکہ کچھ دوست جو نرگسیت کا شکار ھوچکے تھے ۔ جن کو ہر وقت یہی لگتا کہ آگے نئے چہرے آئیں گے تو ہمارا نام ہی گُم ہوجاۓ گا ۔ آج تک بی ایس او جیسی مقدس تنظیم میں اُن نرگسیت کے شکار دوستوں کی وجہ سے ہمارے نۓ دوست مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ اب وقت آ چُکا ہے کہ اُن کو ظاہر کیا جاۓ اور اُن کو ایکسپوز کیا جاۓ نہیں تو آنے والے وقتوں میں یہ ذہنیت ہمیں بہت نقصان دے سکتی ہے اور ایسی بہت سی باتیں ہیں جو میں یہاں نہیں کر سکتا ۔ اِن باتوں کو لکھنے کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہمارے آنے والے طلباء رہنماوں کو اِن مسائل کو حل کرنا ہوگا نہیں تو یہ ناسور بنکر ہمیشہ کیلئے درد سر بن کر رہ جائینگے۔

‏آزادی کی جدوجہد میں خوش فہمی نہیں بلکہ حقیقت پسندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں خود پر اعتماد ضرور کرنا چاہئیے لیکن اپنے قوم کو جزبات کے بجائے شعوری بنیاد پر جوڑ کر اس عظیم جدوجہد کا حصہ بنائیں۔ ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔