کیپیٹل ہل حملہ: ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کے لیے نااہل قرار

85

امریکی ریاست کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے منگل کو اپنے فیصلے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنوری 2021 میں کیپیٹل ہل پر حملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے امریکی صدارت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔

یہ عدالتی حکم جو صرف کولوراڈو پرائمری بیلٹ پر لاگو ہوتا ہے، امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کے کامیابی سے نفاذ کے لیے ملک بھر میں متعدد قانونی اقدامات میں سے پہلا قدم ہے، جس کے تحت بغاوت میں ملوث کسی شخص کو عوامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔

کولوراڈو کی عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’عدالت کی اکثریت کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کو ریاست ہائے متحدہ کے آئین کی 14ویں ترمیم کے سیکشن تین کے تحت صدر کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔‘

مزید کہا گیا: ’چونکہ انہیں (ڈونلڈ ٹرمپ کو) نااہل قرار دیا گیا ہے، لہٰذا کولوراڈو سیکرٹری آف سٹیٹ کے انتخابی ضابطے کے تحت انہیں صدارتی پرائمری بیلٹ پر امیدوار کے طور پر درج کرنا ایک غلط عمل ہوگا۔‘

تین۔ چار کی اکثریت سے دیے گئے اس فیصلے میں مزید لکھا گیا: ’ہم ان نتائج پر سرسری طور پر نہیں پہنچے۔ سوالات کی شدت اور ان کا دباؤ ہمارے ذہن میں ہے۔ اسی طرح کسی خوف اور حمایت کے بغیر اور اپنے فیصلوں پر عوامی ردعمل سے متاثر ہوئے بغیر قانون کو لاگو کرنے کے لیے فرض شناسی بھی ہمارے ذہن میں ہے۔‘

اس سے قبل جب ایک زیریں عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری کے فسادات برپا کرنے میں مدد دی تھی، صدر کے دفتر کو 14ویں ترمیم سے متاثر ہونے والے وفاقی منتخب عہدوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

تین نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی جیت کو چیلنج کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار واشنگٹن کی طرف مارچ کرنے پر اکسایا تھا، جس کے بعد ان کے ہزاروں حامیوں نے چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بولا، جب کانگریس میں جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔

عدالتی حکم کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ چار جنوری 2024 تک اس فیصلے کے خلاف امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان سٹیون چیونگ نے ایک بیان میں کہا: ’ہم جلد ہی ریاست ہائے متحدہ کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے اور اس شدید غیر جمہوری فیصلے کو روکنے کے لیے ایک ساتھ درخواست دائر کریں گے۔‘

سٹیون چیونگ نے مزید کہا کہ کولوراڈو میں ’ڈیموکریٹس کا مقرر کردہ‘ (ججوں کا) پینل ’جو بائیڈن کی جانب سے انتخابات میں مداخلت کرنے کے لیے جارج سوروس کی مالی اعانت سے چلنے والے بائیں بازو کے گروپ‘ کی سکیم کی بولی لگا رہا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں بڑھتی ہوئی غالب برتری کی وجہ سے مایوسی کی حالت میں ہیں۔

’انہوں نے بائیڈن کی ناکام صدارت پر سے اعتماد کھو دیا ہے اور اب وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اگلے نومبر میں امریکی ووٹروں کو انہیں عہدے سے ہٹانے سے روک سکیں۔‘

تاہم اس فیصلے پر سینیئر رپبلکنز کی طرف سے تنقید بھی کی گئی، جن میں 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حریف سینیٹر مارکو روبیو بھی شامل ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’امریکہ دیگر ممالک پر یہی سب کچھ کرنے کی وجہ سے پابندیاں لگاتا رہا ہے، جو آج کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے کیا ہے۔‘

2024 کے صدارتی انتخابات میں نامزدگی کی دوڑ میں شامل وویک راماسوامی نے اسے ’سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے انتخابی مداخلت کا حربہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’یہ (فیصلہ) بالکل جمہوریت پر اصل حملے جیسا ہی ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 کے انتخابات میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے وفاقی سطح پر اور جارجیا کی عدالت میں بھی الزامات کا سامنا ہے، جس نے مستقبل میں صدارت کے عہدے کے لیے ان کی اہلیت پر ایک قانونی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

کولوراڈو عدالت کی کارروائی ملک بھر میں ٹرمپ کے خلاف 14ویں ترمیم کے متعدد مقدمات میں سے ایک ہے جبکہ مینیسوٹا کی عدالت نے گذشتہ ماہ اسی طرح کے اقدام کو مسترد کر دیا تھا۔