بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج

69

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5220 دن مکمل ہوگئے-

بی ایس او کے سیکریٹری جنرل صمند بلوچ، زونل سیکریٹری قبیر بلوچ، سی سی کے ممبر کامریڈ اسرار بلوچ اور دیگر نے کیمپ اکر اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسئلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے اور جبری گمشدگیوں کا مسئلہ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے ہزاروں بلوچ سیاسی کارکن جبری گمشدہ جوکہ پاکستان کی خفیہ حراست اذیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں ان میں سے ہزاروں کو ماورائے قانون شہید کرتے ہوئے انکی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں –

گمشدہ افراد جنکی لاشیں ملیں سب کے سب سیاسی کارکن دانشور طالبعلم ڈاکٹرز اور اساتزہ ہیں اب تک ہزاروں بلوچ پاکستانی خفیہ اداروں کے عقوبت خانوں میں قید ہیں اب تک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا پاکستانی عقوبت خانوں میں قید ہر روز موت کا سامنا کررہے ہیں لیکن پاکستانی حکومت انتہائی مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پاکستان حکومت نے متعدد اجلاس منعقد کئے اور کئی کمیٹیاں تشکیل دیئے لیکن کوئی بھی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کر سکی ہے کیونکہ بلوچستان ایک چھاونی کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اورایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہے اگر یہاں فوج اور اس کے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو اسے نشان عبرت بنایا جاتاہے

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا کردار ماسوائے سالانہ رپورٹز کے کچھ نہیں بلوچستان میں کوئی بھی مانٹرنگ میکینزم نہیں ہے اور اج موجودہ حالات کو مانیٹر نہیں کیا اس کے علاوہ انسانی اداروں کی جانب سے جبری گمشدہ افراد کی لواحقین کو کوئی بھی قانون مدد حاصل نہیں ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ایک انسانی حقوق کے ادارے نے جو اعداد مسنگ پرسنز کے بارے میں شائع کئے تھے انہیں بھی وی بی ایم پی نے رد کردیا تھا اس صورتحال میں آئے روز بلوچستان میں پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری اغوا اور شہید ہوتے آرہے ہیں۔