ایکشن کمیٹی و دیرو کی سیاست – حیوتان بزدار

280

ایکشن کمیٹی و دیرو کی سیاست

تحریر: حیوتان بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

اس وقت بلوچ طلباء سیاست میں بہت سی تنظیمیں ہیں سب اپنی جگہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قوم پرست ہیں ہمارا مقصد نیشنلزم کا پرچار اور نیشنلزم کی سوچ کی بنیاد پر طلباء کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ان میں قومی شعور کو اجاگر کرنا ہے، لیکن ڈی جی خان میں جو طلباء تنظیم ایکٹو نظر آتی ہے وہ ایکشن کمیٹی ہے ایکشن کمیٹی ڈی جی خان زون غالباً دو ہزار اٹھارہ میں فعال ہوئی تھی ،آج پانچ سال گزرنے کے بعد ایکشن کمیٹی کی سیاست آخر غازی یونیورسٹی کیمپس سے کیوں نہیں نکل سکی انہی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ،لیکن غازی یونیورسٹی میں بھی حیثیت یہ ہے ایک بک اسٹال تک نہیں لگا سکتے ،بک اسٹال بھی فٹ پاتھ پر لگایا جاتا ہے اگر آپ بلوچ قومی سیاست کررہے تو اس میں ریاستی فیکٹر کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اگر حقیقی معنوں میں آپ کی سیاست قومی آزادی کے لیے ہو تب،فردی اجارہ داری ۔

جس دن سے دیرو زون فعال ہوئی اس دن سے لیکر اب تک ڈی جی خان کی سیاست ان ہی افراد کے ہاتھوں میں ہے 2018 میں جن لوگوں کو چنا گیا تھا طلبا سیاست کا مقصد کیڈر سازی ہے اچھے کیڈر تیار کیے جائیں تاکہ وہ آگے جاکر شعوری بنیادوں پر قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کرسکیں یہ اس وقت ممکن ہوگا جب تربیت کے لیے سازگار ماحول موجود ہو اور تنظیم میں تبدیلی کا عمل جاری و ساری ہے نئے اسٹوڈنٹس کو موقع دیا جاتا ہو ،فرد کی تربیت میں ادارہ جاتی کلچر (ذہنیت ) کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے ،لیکن ایکشن کمیٹی کی سیاست میں تربیت سے زیادہ ان چیزوں کو اہمیت دی جاتی ہے جس سے دکھایا جاسکے کہ واقعی کام ہو رہا ہے یوں تو اگر سوشل میڈیا پر دیکھیں تو روانہ کی بنیاد ایکٹیویٹیز ہورہے ہیں ،اگر ہم دیرو سیاست کی گوست کا تجزیہ کریں،اگر ایکشن کمیٹی سیاسی تنظیم ہے، تو اس نے کتنے پولٹیکل مائنڈ پیدا کیے؟

کیڈر ساز تنظیم ہے تو کہاں وہ کیڈرز قومی تحریک میں ان کا کردار کہاں کھڑا ہے؟بلوچ سماج میں کس حد تک ہم اپنے نظریے سوچ کو ایکسیپٹ کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟

یہ سب چیزیں اس وقت ممکن ہونگی جب ہمارے پاس ایک واضح موقف اور واضح طریقہ کار ہو اور وقت و حالات کے مطابق پالیسیوں میں مثبت تبدیلییاں لائے جاتے ہوں ؟ اور تنظیم کے اندر فیصلے تنظیمی بنیادوں پر لیے جاتے ہوں ،جہاں فرد سے زیادہ اہمیت تنظیم تحریک قومی سوچ کو دیا جاتا ہو جب ہماری سیاست سوشل میڈیا اور یونیورسٹی کیمپس تک محدود نہ ہو؟

لیکن مسئلہ یہ ہے ہمارے تنظیم میں قومی مفادات سے زیادہ ترجیح فردیت کو حاصل ہے اور انکا چیزوں کو دیکھنے کا انداز ،سوچنے سمجھنے کا انداز ،خود تک محدود ہے انکی نظر ہر وقت اپنے پوزیشن پر ہوتی ہے وہ ہر حالت میں صرف اور صرف اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں چاہے اس کے لیے انہیں جس حد بھی جانے پڑے وہ چاپلوسی کرنے کے آخری حدوں تک جانے کو تیار ہوتے ہیں سیاست کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں جب قابض کی سیاسی پارٹیوں کی طرح ہمارے تنظیم میں بھی پوزیشن بنانے کے لیے ریفرینس کی ضرورت ہو تو ظاہر ہے ہمارے ہاں بھی چاپلوسوں کی بھرمار ہوگی جب ایک شخص کی پوزیشن کو برقرار کرنےکیلئے(۹) نو لوگوں کو تنظیم سے نکال دیا جائے اور اپنی اس عمل کو سراہا جائے اس ذہنیت کو پروموٹ کیا جائے اس سے تنظیم کو فائدہ ہوا ہے ,میرے خیال میں اس سے بڑے کر بے وقوفی کوئی نہیں ہوگی اب اس وقت دیرو زون مکمل غیر فعال ہے لیکن میں نے جس طرح پہلے کہا تھا ہمارے ہاں ان چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس سے ہم لوگوں کو دکھا سکیں کہ واقعی ہم کچھ کررہے ہیں کار بوئگ انت سنگت کار انت اب کی بار دکھانے کے لیے بک اسٹالز کا سہارا لیا جارہا ہے ۔

ہم بعض اوقات یہ سوچتے ہیں شاید ہم کہیں نہ کہیں تبدیلی لارہے ہیں لیکن اگر ہم اپنی گوست کا شعوری تجزیہ کریں تو محسوس ہوتا ہے گول دائرے کے گرد محو سفر ہیں اگر حالت یہی رہے تو یہ اسی طرح جاری رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔