لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری

148

لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5122 دن ہوگئے۔ آج شاعر طارق ڈومکی، مہتاب جکھرانی اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم نے جو پر امن جدوجہد شروع کی ہے اس کی پاداش میں بلوچوں کو جبری لاپتہ اور انہیں سفاکانہ انداز میں تشدد سے شہید کرکے انکی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکا جارہا ہے اسی لیئے لاپتہ بلوچوں کے لواحقین تمام تر کرب کے باوجود اپنے پیاروں کی بازیابی کے حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ لواحقین بارعا اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ مقتدرہ قوتوں سے بھیک نہیں مانگتے ان کے مطابق اگر وہ پاکستانی آئین و قانون کو نہ ماننے اور توڑنے والے ہیں تو انہیں اپنے ہی بنائے آئین و قوانین کے مطابق اپنے ہی قائم کردہ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انکے قانون کے مطابق جو سزا جی میں آئے دیں۔

انہوں نے کہا کہ لواحقین محض یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ریاست نے جو کاروائی کرنی ہے کھلے عام اور انکے اپنے تشکیل کردہ قوانین کے تحت کرنا چاہیے۔ انہیں تختہ دار پر لٹکانے کا حکم سنائیں۔ یہ لواحقین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر انکے پیاروں کو دوران خفیہ حراست تشدد سے شہید کردیا گیاہے تو انکی لاشیں ہی ہمارے حوالے کردیں تاکہ انکے انتظار میں مبتلا بے قرار روحوں کو کچھ قرار نصیب ہوسکے۔ لیکن اس کا جواب انتہائی سفاکیت اور بے حسی سے دیا جارہا ہے اور آپ جب بلوچوں کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر پاکستانی مقتدرہ قوتوں کو بین الاقوامی سطح پر بدنامی و رسوائی جوابدائی کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ اندرونی طور پر مختلف سیاسی لبرل دانشور حلقوں کی جانب سے تنقید کے علاوہ بلوچ پرامن جدوجہد کی مثبت سیاست اور ریاستی عسکری ڈھانچے پر مرتب ہونے والے منفی اثرات بحران مزید گہرا بنا رہے ہیں۔ اور بلوچ قوم میں ہر مسخ شدہ لاشوں کے بعد پاکستانی ریاست اور اس تسلط کی ہر علامت کے خلاف شدید نفرت اور انتقام کی آگ پھیلتی اور بھڑکتی جارہی ہے اس سے پاکستانی فورسز سمیت تمام مقتدرہ قوتیں بین الاقوامی سطح و علاقائی سطح پر تنہا و کمزور ہونے کے ساتھ ریاستی، سیاسی اور سماجی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو کر آج جو کچھ حاصل ہے مگر ڈھونگ رچانے سے نہ تو بلوچ قوم کو بھلایا یا پھسلایا جاسکتا ہے۔