لاپتہ بلوچستان – حکیم واڈیلہ

280

لاپتہ بلوچستان

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستانی اشرافیہ کے بقول بلوچستان میں حصول تعلیم ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے، بلوچ نوجوانوں کو ایک سازش کے تحت تعلیم سے دور رکھا گیا ہے۔ پاکستانی دانشوروں کے مطابق بلوچ نوجوانوں کو سردار تعلیم سے دور رکھ کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کبھی کہا جاتا ہے کیونکہ بلوچ نوجوان تعلیم یافتہ نہیں انہیں دہشتگرد یا بیرون ممالک اپنی مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج کے مطابق بلوچ نوجوان شرپسند ہیں جنہیں حصول تعلیم کا شوق نہیں بلکہ وہ تعلیمی اداروں میں شرپسندی پہلانے کا سبب بنتے ہیں، پاکستانی میڈیا کے مطابق بلوچ نوجوان تعلیمی اداروں میں شدت پسند اور خطرناک نظریات کا پرچار کرتے ہیں، پاکستانی سیاستدانوں کے مطابق بلوچ نوجوانوں کی تعلیمی اداروں میں موجودگی پاکستان کی سالمیت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا سبب بنتا ہے، پاکستان کا دانشور طبقہ بلوچ نوجوانوں کو جاہل، گنوار قرار دیکر انکی پنجاب کے یا دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں موجودگی کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے چانسلرز اور وائس چانسلرز سمیت اکثر انتظامیہ کا رویہ بھی بلوچ نوجوانوں کے ساتھ نسل پرست اور امتیازی ہوتا ہے۔

بلوچ نوجوان ان تمام بے بنیاد الزامات، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرتے ہوئے جب انتہائی محنت ؤ لگن کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تو انہیں قدم قدم پر انتہائی سلوک کا سامنا کرنا پڑھتا ہے، کبھی مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں، تو کبھی لسانی بنیاد پر زدوکوب کیا جاتا ہے، کبھی انہیں اپنی یونیورسٹیز کی سیٹس پچانے کیلئے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنا پڑھتا ہے۔ کبھی انکی پروفائلنگ کی جاتی ہے، کبھی انکے بال، انکی داڑھی، انکے لباس، حتی کے انکا بلوچی کلچرل رقص بھی ایک ہتھیار کے طور پر ان کیخلاف استعمال کرکے انہیں دھمکایا جاتا ہے تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔

بلوچ نوجوان جنہیں واقعتاً حصول تعلیم میں بہت سے مشکلات کا سامنا ہے، اور وہ ان مشکلات کا مقابلہ بھی اپنی مدد آپ کے تحت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا مسئلہ جو انکی تعلیم کو اثر انداز کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دوری پر مجبور کررہا ہے وہ مسئلہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدی ہے۔

اگر حقیقی طور پر بلوچستان اور پنجاب کے نوجوانوں کے شعوری ؤ علمی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ نوجوانوں اکثر سہولیات نہ ہونے کے باوجود بھی شعوری طور پر پنجاب کے نوجوانوں سے نسبتاً زیادہ شعور رکھتے ہیں، انکی علمی ؤ سیاسی ذہانت بھی اُن سے بہتر ہے جس کا اظہار انکی علم ؤ کتابوں سے دوستی ہے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں رواں رکھی گئی پاکستانی ریاست کی پالیسیوں اور تباہ حال نظام تعلیم، اساتذہ کی غیر موجودگیوں، سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب اور اکثریتی آبادی کا پاکستان کے دیگر علاقوں کے مطابق شرح غربت سے بھی بدتر زندگی گزارنے کی وجہ سے ہر ایک شخص یا خاندان کا حصول تعلیم ممکن نہیں۔

اب آپ سوچیے کہ آپ ایک ایسے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اکثریتی آبادی غربت اور لاچاری کی زندگی گزارتے ہیں، جہاں روزگار کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہوں، جہاں بنیادی سہولیات بھی میسر نہ ہوں اور نظام تعلیم بھی درہم برہم ہوں اور آپ اس علاقے سے نکل کر اسکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر طے کریں، اور اسی سفر کے دوران کسی روز اپنی یونیورسٹی کے کیمپس سے سامنے جبری گمشدگی کا نشانہ بنا دیے جائیں، کسی پارک سے لاپتہ کردیے جائیں، مسافر بس سے شناختی کارڈ چیک کرکے اتار دیے جائیں اور بعد ازاں جبری گمشدگی کا نشانہ بنا دیے جائیں، جب آپ چھٹیاں گزارنے اپنے گاؤں کار رخ کریں ہوئے اور اچانک رات کی تاریکی میں دوران آپریشن حراست بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بنا دیے جائیں تو کیا آپ اس طرز تعلیم، اس طرز حکمرانی، اس طرز قانون، اس طرز انصاف کو مانتے ہوئے اس کے مطابق چلینگے؟ یا پھر اس نظام سے، اس دستور سے، اس ریاست سے، اس کی پالیسیوں سے، اس کے اداروں سے، اس کی فوج اور پیراملٹری فورسز سے نفرت کرینگے؟

بلوچ نوجوان آج ایک تاریخ کے ایک انتہائی موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں ایک طرف انہیں ظلم ؤ جبر کا سامنا ہے، جہاں جبری گمشدگیاں، پروفائلنگ، جعلی مقابلوں میں قتل ہونا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے تو وہیں دوسری جانب انکی سیاسی جدوجہد پر قدغن لگائی جار ہی ہے، انکے سوچ، نظریہ اور شعور کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی سازش جاری ہے، جسکا بنیادی مقصد بلوچوں کو بلوچستان سے، بلوچ قومی سوال سے، بنیادی بلوچ مسئلہ سے دور رکھ کر غیر ضروری اور غیر اہم مسائل میں الجھا کر انہیں انکی ہی سرزمین پر غلامانہ طرز زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے۔

ریاستی سطح پر بلوچ شعور کو دبانے کی انتہائی تیزی اور شدت کے ساتھ ماضی میں بھی کوشش کی گئی ہے اور حال میں بھی جاری ہیں۔ لیکن ان کوششوں ان سازشوں کے برعکس بلوچ نوجوانوں نے ہمیشہ ہی شعوری پختگی دکھاتے ہوئے ریاستی جبر کیخلاف سیاسی مزاحمت کا عمل جاری رکھا۔ بلوچ نوجوان آج بھی بلوچستان کی تاریخی حیثیت اور بنیادی بلوچ قومی سوال کے جواب طلب ہیں۔ ریاست اگر یہ سمجھتی ہے کہ نوجوانوں کو لاپتہ کرکے، انہیں قتل کرکے، انکی تذلیل کرکے، انکی پروفائلنگ کرکے، انہیں ڈرا دھمکا کر بلوچوں کے شعور کو دبا سکتی ہے تو یقیناً ریاست نہ تو دنیا کی تاریخ سے کچھ سبق حاصل کرسکی ہے اور نہ ہی اپنے ماضی سے سبق لے سکی ہے۔ اور سب سے بڑھکر نہ ہی ریاست بلوچستان میں موجود نفرت کے آتش فشاں کے تپش کو سجھ سکی ہے کہ بلوچستان میں موجود آتش فشاں کے پھٹنے سے ریاست کی بنیادیں تک باقی نہیں رہینگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔