بلوچستان میں عورت ریاستی اجتماعی سزا کے شکار ہورہی ہیں۔ سموراج

164

بلوچ وومن فورم کے نئی کابینہ عمل میں
لائی گئی، جس میں بلا مقابلہ آرگنائزر شلی، ڈپٹی آرگنائزر حنیفہ بلوچ منتخب ہوئی جبکہ مرکزی ممبر زکیہ ، شہناز بلوچ، ہانی بلوچ ، فرزانہ بلوچ، رقیہ بلوچ منتخب ہوئیں۔

تیسری مرکزی کابینہ میں آرگنائزر کی خطاب، آئین سازی، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، سیاسی صورتحال، آئندہ کا لائحہ عمل اور آرگنائزر کی آخری خطاب کے ایجنڈے زیربحث رہے۔

سابقہ آرگنائزر زینگل بلوچ نے کہا کہ امید ہے کہ نو منتخب مرکزی کابینہ بلوچ وومن فورم کو مزید منظم اور ادارتی جات طریقہ سے بلوچستان میں بلوچ خواتین کی موثر آواز بنے گی۔

انہوں نے مزید کہا اس وقت بلوچستان میں خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے، جن میں گھریلو تشدد ، غیرت کے نام پہ قتل، جبری گمشدگی، اور خودکشیاں ہیں، کم عمری میں شادیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ جبکہ خواتین کو صحت سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ دور دراز علاقوں میں رہنے والی خواتین کو جدید دور میں بھی علاج ومعالجہ باالخصوص امراض نسواں کے علاج کے لئے ہزاروں کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے جن میں سے اکثر کی موت واقع ہوتی ہے۔ ہم اس جدید اور سائنسی درو میں بھی پتھر کے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہاں غربت و فاقوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشا بچوں کی پیدائش کی وجہ سے شادی شدہ عورتوں میں بیماریاں اور اموات زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں فیمل ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ حکومتی سطح پر خواتین کے لیے کوئی اقدام نہیں دیکھا گیا ہے۔

بلوچ وومن فورم کی نومنتخب آرگنائزر بانک شلی بلوچ نے کہا بلوچ وومن فورم بلوچ خواتین کی مضبوط آواز ہے جو اپنی چار سالہ دور کو کامیابی ،استحکام اور تنظیمی مقاصد کو مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔ فورم بلوچستان کی پہلی خواتین تنظیم ہے جو صرف بلوچ خواتین پر مشتمل ہے جس کا مقصد بلوچ معاشرے میں سموراج (برابری کی سماج) کی تشکیل ہے۔ اس وقت بلوچ خواتین مختلف معاشرتی مشکلات یا زندگی کی بنیادی مشکلات کے علاوہ اپنے انسانی بقاءکے مسئلے کا سامنا کررہی ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین اپنے انسانی برابری کے لیے کوشاں ہیں مگر بلوچستان میں عورت ریاستی اجتماعی سزا کا نہ صرف شکار ہورہی ہیں بلکہ اب انہیں جبری لاپتہ بھی کیا جارہا ہے، بلوچ خواتین اب مزید معاشرتی و فرسودہ روایاتی اور ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرئے گی۔ نجمہ کے حالیہ واقعہ نے بلوچستان میں خواتین پر ہونے والے زیاتیوں کا عکس دیکھایا ہے۔ آئے روز نصیر آباد میں خواتین کو غیرت کے نام قتل کیا جاتا ہے۔ بارکھان کے واقعے نے یہ ثابت کیا کہ بلوچستان نہ صرف خواتین بلکہ یہ نظام انسانی بنیادی حقوق کی سنگین پامالیوں میں سرگرم عمل ہے جس پر انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی افسوس ناک ہے۔

انہوں نے کہا فورم بلوچ خواتین کو دعوت دیتی ہے کہ وہ بلوچ وومن فورم میں شمولیت اختیار کر کہ بلوچستان کی ترقی میں اپنا سیاسی و قومی کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہاکہ فورم اپنے بلوچ بھائیوں سے بھی درخواست کرتی ہے کہ وہ خواتین کی ایمپاورمنٹ کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے یک مشت ہونا ضروری ہے۔