جب وہ دن آئے گا ۔ سفر خان بلوچ (آسگال)

637

جب وہ دن آئے گا

تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

وہ دن آئے گا، جب جنگ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہوگا اور اس دن جنگ کی ایک نئی شکل ہوگی، جنگ کے اختتام کے دن ہوں گے، زمین سے خون کے چشمے پھوٹیں گے، وہ انتقام کا دن ہوگا۔ وہ ایک نئی صبح ہوگا جو زنجیریں ٹوٹنے کا پیام لائے گا ۔

اس دن شکست خوردہ دشمن اپنے لئے راستے ڈھونڈ رہا ہوگا، چاروں اطراف سے دشمن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی، دھماکوں کی آواز سے زمین لرز اٹھے گا، اس دن دشمن کے پاس بھاگنے کے سوائے کوئی راستہ نہیں ہوگا، جب وہ دن آئے گا۔

جب وہ دن آئے گا، ظلم کی اندھیر نگری اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہوگا۔ اس دن سورج خوشیوں کے ساتھ طلوع ہوگا، شہیدوں کی بہتی ہوئی خون اس دن رنگ لے آئے گا، جدوجہد کی شدت سے منزل کے حصول کا دن ہوگا اور دشمن کے لئے تمام راستے مسدود ہوچکے ہونگے، ہمارے خواب شرمندہ تعبیر ہونے والے ہونگے، جب وہ دن آئے گا۔

جب وہ دن آئے گا، سرمچار دشمن کو شکست دے کر گھر کو لوٹیں گے، ان پہ زرشان ہوگا، مائیں بہنیں سب ایک قطار میں کھڑے ہوکر انتظار کررہے ہونگے، سالوں سے بیٹھی ہوئی محبوبہ اپنے محبوب کے آنے کی خوشی میں ہاتھوں پہ مہندی لگائے گی، اس دن ایک لمبی اندھیری رات اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہوگا۔

شہیدوں کے اولادیں اس دن بڑے فخر سے بلوچستان کا بیرک بلند کرکے آزادی سے گھومیں گے، شہداء کے مزاروں پہ میلہ کا سماں ہوگا ، جب آزادی کی سورج سے لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے، قوم کے زبان پر جہدکاروں کے قربانیوں و بہادری کی داستانیں ہوں گے، جب وہ دن آئے گا۔

بچے آزادی کی مستاگ لینے کے لئے اپنے بڑوں کی پاس جائینگے، شکست خوردہ دشمن کے داستان ختم ہوگی اور بلوچ سپوتوں کی بہادری کے کہانیاں ہر کسی کی زبان پر ہوں گے۔ سب کے آنکھوں میں چمک اور پیشانی پہ نور ہوگا، تمام امیدیں روشن ہونگے، ناامیدی کی سورج غروب ہوچکا ہوگا، جب وہ دن آئے گا۔

جب وہ دن آئے گا، راسکوہ، ریکوڈک اور سیندک زنجیروں کو توڑ چکے ہونگے، زخمی سینے کے ساتھ وہ بھی محو پرواز ہونگے اور آزادی کے فضاوں میں جھوم کر ناچینگے، بولان اور زامران کی داستان تاریخ کا حصہ ہوں گے اور ہم اُن کی بہادری پر نازاں ہوں گے، قوم کے بزرگ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اُن کے ہمقدم ہوں گے ۔

اس دن شہدا کی روحیں آسمان پہ نمودار ہونگے، اپنے دیس واسیوں کی منزل کے حصول کی خوشیوں میں ساتھ ہونگے ۔ بلوچ عوام سر جھکائے ان کے سامنے سرخم ہونگے، سب کے آنکھیں آنسوؤں سے بھرے ہونگے مگر وہ آنسو خوشی کے ہونگے۔

اس دن کچھ زخم ایسے بھی ہونگے کہ ان کو بھرنے کے لئے صدیاں لگیں گے، کچھ اذیت ناک خواب، کچھ درد بھری انتظار، شاہد اس دن بھی ختم نہ ہوسکیں، منزل کے حصول کے بعد بھی انتظار کی دردناک گھڑیاں ہوں مگر اس دن ملنے والی خوشی وقت کے ساتھ تمام گہری زخموں کو مرہم لگائے گا۔

جب وہ دن آئے گا اور ہم آزاد ہونگے، بلوچ زمین پر بلوچ راج ہوگا، ہماری سرزمین پر ایک نئی سورج طلوع ہوگا۔ ہاں وہ دن ضرور آئے گا جب ہم آزاد ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں