بلوچستان میں تعلیمی بحران نوآبادیاتی تسلط اور نفسیات کی پیداوار ہے۔ بی ایس او

172

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی بحرانی صورتحال برسوں سے جاری نوآبادیاتی تسلط اور پالیسی کا نتیجہ ہے۔ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کو نہ صرف بدترین تشدد اور جبر کا سامنا ہے بلکہ بلوچ قوم اس وقت معاشی، سماجی اور سیاسی نسل کشی کا بھی مقابلہ کر رہی ہے۔ ایسے میں قوم کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو مضبوط قومی پروگرام کے گرد منظم ہوکر اس بربادی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

بلوچستان پر بدترین ظلم و جبر میں طلبا بلخصوص متاثر ہورہے ہیں اور اذیت خانوں اور بیروزگاری کے خوف کے ساتھ اب ان پر تعلیم کے دروازے بھی مکمل بند کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایک طرف بلوچ طلبا کو آئے روز جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں کو تباہی سے دو چار کیا گیا، تاکہ بلوچستان کی ابتر تعلیمی صورتحال کو مزید بھیانک شکل دی جا سکے۔

مرکزی ترجمان نےاپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی یہ المناک و تباہ حال صورتحال اچانک سے ابھر کر سامنے نہیں آئی بلکہ اس حالت زار کے پیچھے لوٹ مار، جبر اور استحصال کی طویل داستان ہے۔ جس کے تحت بلوچستان کے جامعات پر ریٹائرڈ عسکری مافیاز کو مسلط کیا گیا، جامعات کو سنگین ملٹرائزیشن کا شکار بنا کر طلبا کو خوف و جبر اور تشدد کا نشانہ بنا کر علم اور سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کی گٸی، سفارشی اور لالچی فیکلٹی کو پراوان چڑھا کر کرپشن اور لوٹ مار کی نِت نٸی داستانیں رقم کی گٸی اور نتیجتاً تعلیمی ادارے بے تحاشا کرپشن اور بوگس پالیسیز کی وجہ سے آج بحران زدہ ہیں۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ تربت یونیورسٹی، خضدار انجنیٸرنگ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف بلوچستان لسبیلہ یونیورسٹی وڈھ کیمپس سمیت تمام تر تعلیمی اداروں پر یہی تعلیم دشمن کرپٹ مافیاز مسلط ہیں، ان مافیاز کی جائیداد میں تو بے پناہ اضافہ ہوا مگر خواندگی کی شرح میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہو پایا۔ آج بلوچستان میں ہزاروں گھوسٹ سکولز اور کالجز ہیں لیکن آبادی کی اکثریت خواندگی کی بنیادی شرائط پر پورا نہیں اترتی۔

نوآبادیاتی پالیسیز اور نفسیات ہمیں اس کمزور پوزیشن پر لائے ہیں جہاں سے آگے بحران در بحران ہے۔ ٹیچرز یونین سے لے کر مزدور یونینز اور یہاں تک کہ طلبا تنظیموں پر نوآبادیاتی نفسیات اس قدر غلبہ پاچکی ہے کہ وہ عملی و کرداری صلاحیت ہی کھو چکے ہیں اور ان سے کسی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

آج ان ہی کی کرپشن اور آپسی رسہ کشی کا خمیازہ بلوچستان کے طلبہ بھگت رہے ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن یونیورسٹی آف بلوچستان، یونیورسٹی آف تربت، لسبیلہ یونیورسٹی وڈھ کیمپس اور خضدار یونیورسٹی سمیت بلوچستان کا تمام تعلیمی اداروں کا شفاف آڈٹ اور ان اداروں پر مسلط مافیاز کے احتساب کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی عام عوام اور طلبا سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بدترین صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں ایک قوم کے طور پر سیاسی شعور اور تنظیم کاری کے ذریعے آگے بڑھ کر اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے ہونگے۔ ہم طلبا یونینز کی بحالی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک طلبا کو اپنے ادارے کے فیصلہ جات پر اختیار نہیں ہوگا تب تک تعلیمی ادارے کرپٹ مافیاز کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ٹیچرز یونین کی سنڈیکیٹ سے بے دخلی کے عمل کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم اساتذہ اور طلبا کی یکجہتی پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ ایک توانا تحریک پروان چڑھائی جا سکے۔

بی ایس او تعلیم دشمنی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گی اور طلبا حقوق کی خاطر اپنی تمام قوتیں بروئے کار لا کر ان استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرے گی۔