ماہل بلوچ پر قانونی کاروائی کے نام پر تشدد کیا جارہا ہے – این ڈی پی

394

ریاست پاکستان کی معیشت ،سیاست اور امن امان کی صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید بحران بڑھتا جائے گا، حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے جس سے اس خطے کا ہر باسی متاثر ہونے کیساتھ اس پورے نظام سے بیزار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی شال کیجانب سے غنی بلوچ و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتےہوئے کیا۔

این ڈی پی رہنماوں کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام ادارے تقسیم ہوچکے ہیں، فوجی اداروں سے لے کر عدالت عالیہ سب تقسیم کا شکار ہیں ۔ حکمرانوں سے لے کر عدالت عالیہ سب کو عوام اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، خاص کر بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی حیثیت کیڑے مکوڑٖوں سے بھی بد تر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا مسئلہ ان تمام مسائل سے ہٹ کر ہے، وہ مسائل جو کہ اس وقت شہر اقتدار میں اسلام آباد والوں کو در پیش ہے، جس طرح اسلام آباد میں بیٹھے اسٹیبلشمنٹ سے لے کر حکمرانوں تک کو بلوچ عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے ، اسی طرح بلوچستان کے باسیوں کو ان کے آپس کی لڑائی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے ۔

“بلوچستان میں پارلیمان کے اندر اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، حکومت سے لے کر اپوزیشن تک سب لوٹ ماری میں اور اپنی ٹھیکداری ،بینک بیلنس بڑھانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ، تمام محکمے غیر فعال ہیں ، ساحل و سائل کا بے دریغ لوٹ مار، ریکوڈک جیسے بہت بڑے ذخائر کی بلوچ عوام کی مرضی و منشا کے بغیر معاہدہ کرنا ، تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے کرپشن ،سفارشی کلچر اور نا اہل انتظامیہ کی وجہ سے مالی بحران کا شکار ہیں ، یونیورسٹی آف بلوچستان، بیوٹمز، سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی میں ملازمین سے لے کر اساتذہ تک سب احتجاج کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو کچھ فرق نہیں پڑ رہا ہے حالانکہ چانسلر کا ایک بہت بڑے قوم پرست پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کے یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے۔”

این ڈی پی رہنماوں کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام مسائل کے باوجود جو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ انسانی حقوق کا ہے، آئے دن لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں ، لاشیں گر رہے ہیں ، سی ٹی ڈی کے نام پر ایک بے لگام گھوڑا ہم پر مسلط کیا گیا ہے ، جو کہ ڈیتھ اسکواڈ کا دوسرا روپ دھار چکا ہے، یہ سی ٹی ڈی نامی ادارہ ریاست کے آئین و قانون کے تحت رہنے والا سیکورٹی ادارے کے نام پر ڈیتھ اسکواڈ کا کام کر رہی ہے، جب چاہے جہاں چاہے لوگوں کو اٹھا کر (ان میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں) جبری طور گمشدہ کر دیتے ہیں یا جب چاہے دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلے میں بلوچ فرزندان کو قتل کر دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ یاد رہے بلوچستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ نوجوان نسل کو اس ریاست سے، اس کے اداروں سے کوئی امید نہیں رہی ہے، اگر سی ٹی ڈی جیسے اداروں کی اسی طرح پالیسیاں رہے تو وہ دن دور نہیں ہے اس ادارے کا وہی حال ہوگا جو باقی اداروں کا رہا ہے، آج پورے ریاست پاکستان کے اندر ان اداروں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں کیا باتیں ہو رہی ہیں، کیسے کیسے انکشافات ہو رہے ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ صحافیوں کو معلوم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 17 فروری کی رات کوکوئٹہ سیٹلائٹ ٹاون میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر وہاں ایک بلوچ خاتون ماھل بلوچ کو جبری طورپر گمشدگی کا شکار بنایا گیا، اس دوران گھر پر ان کے دو چھوٹے بچیاں اور بوڑھی والدہ بھی موجود تھیں، اہل خانہ کے بقول جب سیکیورٹی ادارے والے گھر پر آئے تو گھر میں توڑپھوڑ کرنے کے بعد ماھل بلوچ کو دوسرے کمرے میں بند کرکے ان پر تشدد کیا جا رہا تھا اور چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں، دوسرے دن اسی سی ٹی ڈی نامی ادارے نے اس کی ذمہ داری قبول کرکے عجیب قسم کی بھونڈی الزامات لگا کر اسے دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی پھر ماھل بلوچ کو خفیہ طور پر اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں پیش کرکے 7 دن کے ریمانڈ پر اپنے زیر حراست رکھا، اسی طرح سات دن پورے ہونے کے بعد ایک دفعہ پر اسے عدالت میں پیش گیا گیا تو اہل خانہ کے بقول ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کے آثار تھے ، ان کو خاص کر ذہنی طور پر بہت زیادہ ٹارچر کیا گیا تھا ، سات دن کے ریمانڈ کے نام پر دو بارہ اپنے زیر حراست رکھا گیا، اسی سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر 4 مارچ کو دوبارہ دس دن کے ریمانڈ کے نام پر زیر حراست رکھا گیا حالانکہ 4 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کے دوران عدالت کو کہا گیا تھا کہ اس کے بعد اور ریمانڈ نہیں ہوگا بلکہ انہیں جیل منتقل کیا جائے گا لیکن جب 14 مارچ کو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت کو یہ کہا گیا کہ محکمہ داخلہ کی جانب سے جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے اسی لیے ہمیں اور دس دن کی ریمانڈ چاہیے تو عدالت نے بھی مزید 10 کی ریمانڈ دے دی۔

“یعنی ایک بلوچ خاتون 35 دن ریمانڈ کے نام پر ان کے زیر حراست رہے گی ۔ یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ اگر جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم ابھی سے تفتیش کر رہی ہے ، تو پچھلے 25دن وہ کس بنیاد پر ریمانڈ پر تھی ، اور کون سے ادارے اور لوگ اس سے تفتیش کر رہے تھے ۔ عدالت کے اس طرح کے نظام انصاف پر انگولیاں اٹھیں گی کہ یہاں پر عدالتوں میں طاقت ور لوگوں کے لئے اور نظام ہے، غریب اور مظلوموں کیلئے اور نظام ہے، عمران خان یا عبدالرحمان کھیتران جیسے لوگوں کی مثالیں ہمارے سامنے کہ عبدالرحمان کھتران تین قتل کرنے کے باوجود ایک ہفتہ بھی جیل میں نہیں گزارتا اور ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں، اسی طرح عمران خان جیسے لوگ اس ریاست اور اس کے اداروں کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کا کوئی بال بہکا کر سکے ۔ اگر یہی عدالتوں کے رویے رہے اور یہی نظام انصاف رہا تو کل کے دن ہر کوئی یہی چاہے گا کہ میرے ہاتھ میں بندوق ہو پھر میں جو چاہوں کر سکتا ہوں حتیٰ کہ عدالتوں سے اپنی مرضی کا فیصلہ بھی کروا سکتا ہوں ۔

این ڈی پی رہنماوں نے کہا کہ ہم آپ کے توسط سے عدالت عالیہ سے بھی یہ گزارش کرتے ہیں کہ خدارا نظریہ ضرورت کے تحت یا کسی بھی ادارے کے دباو میں آکر اس طرح کے فیصلہ نہ کریں جس سے انصاف کا گلہ گھونٹا جاسکے ، حالیہ وقتوں میں ججز کے حوالے سے جو باتیں ہو رہے ہیں جس طرح کے بیانات دیئے جا رہے ہیں یا جس طرح ان ججز کے جس طرح کے آڈیوز سامنے آ رہے ہیں ان سے ہی ان عدالتوں میں بیٹھے فیصلہ کرنے والے ججز کو ہوش کا ناخن لینا چاہے کیونکہ اب بھی جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پیاروں پر جو الزامات ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کرے، ان پر الزامات ہیں وہ ثابت کرے عدالتیں ان کو جو بھی سزا دیں ہمیں قبول ہے لیکن اگر اس طرح کا رویہ رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب یہی جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین یہ کہہ دیں گے کہ ہمیں ان عدالتوں پر کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ عدالتیں بھی انصاف کی بجائے خفیہ اداروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔