1971 کی جنگ میں بلوچوں کی خواتین کو لاہور اور راولپنڈی کی منڈیوں میں بیچا گیا۔ ماما قدیر

556

جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے سامنے آج4965 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر نیشنل پارٹی سندھ کے صوباںٔی صدر عبدالحمید ساجدی، علی احمد لانگو بلوچ، انجنیئر حمید بلوچ اور دیگر کیمپ نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جاری مظالم کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ بلوچ، سندھی پشتونوں میں قبول حیثیت رکھتی ہے بلوچ نوجوانوں خواتین کو آگاہی اور شعوری ہتھیار سے لیس کرنے میں ان کی ہر میدان میں رہنمائی کرنے کے لئے تنظیم ہمیشہ سے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی افواج کی جانب سے آپریشن میں کوئٹہ سے ماہل اور ان کے معصوم بچوں کو رات کی تاریکی میں جبری اغوا بھی شامل ہے کہ لاپتہ کرنے کی خبر ملتے ہی تنظیم کی طرف پریس کانفرنس کی گئی جس میں اس مسئلے کو میڈیا کے سامنے لایا گیا اور پورے بلوچستان میں خبر پھیل گئی تنظیم نے پہلے بھی بلوچ خواتین کے معاملے میں پر سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اور عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائی۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قبضہ گیر نے اپنی پوری توجہ بلوچ قوم کی نسل کشی اور جدوجہد کے خاتمے پر لگا رکھی ہے آۓ روز بلوچستان بھر میں آپریشن مسخ شدہ لاشوں اور جبری اغوا کرنے میں ریاست اور اس کے کارندوں کی جانب سے تیزی آئی ہے مذہبی انتہاء پسندی کا بڑھتا رحجان بلوچ خواتین کا جبری اغوا جیسے واقعات میں روز اضافہ ہورہا ہے اگر پاکستان کے ظلم درندگی دیکھیں تو 1971 کی جنگ میں کوہلو مری بلوچوں کی خواتین کو لاہور اور راولپنڈی کی منڈیوں میں بیچا گیا اور قبضہ گیر افواج سے بلوچ خواتین کے ٹرک بھر بھر پنجاب لے جایا گیا۔ موجودہ دور میں جدوجہد نے اس وقت ایک نیا رخ لیا ہے جب بلوچ قوم کندھا سے کندھا ملا کر کھڑی ہوگی۔ جدوجہد اور سیاسی میدان میں با شعور نوجوانوں نے قیادت کو سمبھال لیا تو اس کا اثر بلوچ خواتین پر پڑنا بھی لازمی تھا۔ اپنے بھائیوں کی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے بلوچ خواتین نے بڑھ کر جدوجہد میں حصہ لینا شروع کر دیا۔