بلوچ قوم میں نسلی تفریق ۔ غلط فہمی یا سازش؟ – مولانا اسماعیل حسنی

529

بلوچ قوم میں نسلی تفریق ۔ غلط فہمی یا سازش؟

تحریر : مولانا اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

آج کراچی سے ایک فون آیا۔

کتاب کی پشت پر درج میرا نمبر کسی نے ان کو سینڈ کیا تھا۔

فون پر سندھی لہجے کی اردو میں کوئی بول رہا تھا۔

فون پہ گفتگو کرنے والا ”ملک“ برادری سے تھے، ان کے بقول بنیادی طور پر شکارپور سے ہیں، بعد میں ہمارا خاندان سکھر شفٹ ہوگیا، اب کچھ عرصہ سے کراچی میں امامت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔

یہ 55 برس عمر کا ایک شخص تھا جو سکھر میں میرے ”ہم استاذ“ بھی رہ چکے ہیں۔

یہ دراصل فون پہ کراچی میں ”قضیہ ارض مقدس“ کتاب ملنے کا پتہ مجھ سے مانگ رہے تھے، میں نے ایڈریس دینے کا وعدہ کرکے فون بند کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے فورا بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

”آپ کو سندھی آتی ہے؟ “

میں نے کہا تھوڑی بہت۔

انہوں نے تعارف کے طور پر پوچھا:

”آپ بروھی ہیں؟ “

میں نے کہا آپ اندرونِ سندھ سے ہیں؟

یہ سن کر وہ شدید طیش میں آکر سخت بگڑ گئے؟

حالانکہ میں نے کوئی گالی نہیں دی صرف ایک بات پوچھا۔ میرے پوچھنے کا وجہ یہ تھا کہ سندھ میں بلوچوں کو ایک منصوبے کی تحت دو جگہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بروھی اور بلوچ۔

میں نے اندرون سندھ کی بحث اس وجہ سے چھیڑا کہ اس تناظر میں انہیں ہاں نہ میں جواب دوں۔ ورنہ اللہ گواہ ہے انہیں چھیڑنے کا میرا قطعی طور پر کوئی ارادہ نہیں تھا۔

اندرون کے لفظ سے یہ صاحب جس قدر طیش میں آگئے یہ ایک عام سندھی کی نفسیات ہے۔ انہوں نے یہ اظہار بھی کردیا اور شدید احتجاج بھی۔

ہمارے سامنے بلوچوں کو نسلی بنیاد پر بروھی وغیرہ الگ الگ کرکے تقسیم کرنا اس سے بھی زیادہ بڑا جرم ہے۔ کیوں کہ وہاں جغرافیہ کا مسئلہ ہے یہاں تو ہمارے گھروں اور خاندانوں کا معاملہ ہے۔

براہوئی بلوچ نسل کا ایک زبان ضرور ہے لیکن مستقل بالذات ایک جداگانہ نسل ہرگز نہیں۔ جس نے نسل لکھا ہے غلط ہی لکھا ہے، نسل بلوچ ہی ہے خواہ کھیترانی بولی بولے یا سرائیکی، لاسی بولے یا پھر براہوئی اور بلوچی۔ خود ہمارے خاندان میں اس وقت دو زبانیں رائج ہیں۔ براہوئی اور بلوچی۔ بلکہ میرے اپنے گھر میں بھی دونوں زبانیں رائج ہیں۔ ہمارے لیے تو نسل کی تقسیم گھر میں تفریق اور پھوٹ ڈالنے والی بات ہے۔

احتجاج میرا حق تھا، پہل انہوں نے کیا، بسر و چشم مگر میں اپنا حق یہاں ہزاروں لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ میرے مقدمے سے سندھ میں ایک منصوبے کی تحت یہ تفریق بلوچ حضرات بھی اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔

مردم شماری کی آمد آمد ہے۔

منصوبہ ساز ادارے اپنے منصوبوں کی تکمیل کےلیے اب نسلوں کو نچلی سطح کی شاخوں میں بانٹنے کا حربہ کھیلیں گے۔

کم کو زیادہ اور زیادہ کو کم بنا کر شو کریں گے۔

اس وقت بلوچستان میں بھی براہوئی اور بلوچ کے درمیان تفریق زوروں پر ہے۔

ہم زور آوروں کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے البتہ یہ شعور تو اجاگر کرسکتے ہیں کہ یہ تفریق ایک منصوبے کی تحت ہو رہا ہے۔ بروہی زبان ہے مگر نسل نہیں۔ کیسے؟

آپ جب بلوچستان آجائیں تو پہلے مکران و رخشان ڈویژن چلے جائیں۔ وہاں سب سے پہلے مقامی قوموں اور قبائل سے متعلق دریافت کرلیں اور پھر اس کے بعد جھالاوان و سروان بیلٹ واپس آجائیں، یہاں بھی قوموں اور قبائل کے متعلق ویسے ہی دریافت کرلیں۔ جو جو اقوام و قبائل اول الذکر ڈویژنز میں آپ کو بلوچی بولی بولتے نظر آئیں گے سیم وہی سارے اقوام و قبائل ثانی الذکر بیلٹس میں براہوئی بولتے پائیں گے۔ کچھ مزید تفہیم!

اس مسئلے کو میں اپنے قبیلہ (مماسنی، مامسنی، محمد حسنی یا حسنی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ ) کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کروں گا جو بلوچوں میں ایک بڑا قبیلہ مانا جاتا ہے۔

ہمارا قبیلہ بلوچستان میں تو ہے ہی، سندھ اور پنجاب میں بھی ہے۔ پنجاب میں سرائیکی بولتے دیکھا ہے۔ سندھ میں دونوں زبانیں یعنی براہوئی اور بلوچی۔ خود ہمارے قبیلہ کے دو مشہور سردار خاندانوں میں بلوچی زبان رائج ہے۔

افغانستان میں بلوچی، براہوئی اور پشتو بولی بولتے ہیں۔ زبان کی فرق سے نسل متاثر نہیں ہوتا۔

ایران میں بھی بیلٹس کا فرق ہے۔ خود ہمارے کئی رشتہ دار بھی وہاں ہیں۔ بلوچی اور براہوئی دونوں بولتے ہیں۔

چاغی، خاران، واشک، گوادر، تربت، پنجگور اور آواران میں مامسنی بلوچی بولتے ہیں۔ خضدار، قلات، سوراب مستونگ، نوشکی اور کوئٹہ میں براہوئی۔

سیم یہی معاملہ رند، مینگل، شاہوانی، زہری کا ہے۔

بلوچستان کے ایک سابق گورنر اور کور کمانڈر جنرل عبدالقادر بلوچ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ یہ اور سردار ثناءاللہ زہری ایک ہی قبیلہ سے ہیں۔ سردار ثناءاللہ زہری قبیلے کا نواب اور جھالاوان بیلٹ کا قبائلی چیف ہے۔ براہوئی بولی بول کر بلوچ بھی وہ کہلاتا ہے اور جنرل عبدالقادر بلوچ رخشان ڈویژن سے ہے۔ خاندانی زبان براہوئی نہیں پھر بھی ان نسل متاثر نہیں اور وہ بلوچ لفظ نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ یہی معاملہ سردار اختر مینگل کے قبیلہ پر بھی قیاس کرکے آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔

بلوچستان کے ایک چالاک ایم پی اے ثناء بلوچ کو کون نہیں جانتا؟ ان کی خاندانی زبان براہوئی ہے۔ نسل بلوچ ہے تو بلوچ لکھوانا ہی پسند کرتا ہے۔ اب اصل میں معاملہ کہاں خراب ہے؟ یہ سمجھیے!

اس وقت جبری گمشدہ بلوچ جب رہائی پاتے ہیں تو انہیں رہائی کے وقت براہوئی کے خلاف پٹی پڑھایا جا رہا ہے کہ وہ آپ کی حقوق غصب کر رہا ہے اور خاندان کی زبان اگر براہوئی ہو تو بلوچ کے خلاف ذہن سازی کرائی جاتی ہے کہ بلوچستان میں سب سے بڑی آبادی براہوئیوں کی ہے آپ اپنی شناخت کیوں حاصل نہیں کرتے؟ یہ تحریک شروع ہوچکی ہے۔ نصیر آباد بیلٹ میں اس کے خونریز نتائج بھی مرتب ہونے ہیں۔

دوسرا کام سیاسی طور پر نواب اسلم رئیسانی کے بھائی حاجی لشکری کے ذریعے تفریق کے اس گھناؤنے تصور کو فروغ دیا جا رہا ہے جب کہ رئیسانی قبیلہ خود بلوچ نسل سے نہیں بلکہ یہ خود افغانستان سے درآمد تور ترین پشتون نسل کا ایک قبیلہ ہے۔

بات لمبی ہوتی جارہی ہے۔ صرف چند باتیں عرض کرنے دیں!

مولانا شیرانی نے مشرف سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ اپنے ادارہ کو بتائیں اگر ملک تقسیم کرنا ہی ہے تو خدارا عوام کا خون نہ بہائیں۔ ہم نے بھی اس جغرافیہ پر کوئی کلمہ تو نہیں پڑھا ہے۔ جیسے چاہیں سرحدی لکیریں کھینچ دیں۔ آپ کی مرضی!

یہی بات ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر مردم شماری کے ذریعے نسلیں بگاڑنا ہے، قوموں اور نسلوں کی شناخت تبدیل کرنا ہے تو یہ شوق بھی بغیر خون خرابہ کے پورا کرلیں! جس نے ماننا ہو مان لے گا۔ جو نہ مانے ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر یا اغوا کرکے رہائی دلانے کے بعد ان جیسوں کے ذریعے زبردستی نہ منوائیں۔

بات پھر وہی ہے۔ ایک سندھی کو کراچی کی تقسیم کے تناظر میں ”اندرون“ لفظ اتنا گراں نہیں گزرتا جتنا کہ ایک بلوچ کو بروھی اور بلوچ کی تفریق سے وحشت اور نفرت ہوتی ہے۔ جو اس تحریک اور تفریق کے متعلق خاموش ہے وہ یا تو اپنی تاریخ سے لاعلم، نسل سے نابلد اور قومی پسِ منظر سے جاہل ہے یا پھر طاغوتی اور شیطانی قوتوں کا آلہ کار۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں