جبری گمشدہ افراد کمیشن و جی آئی ٹی اور ڈرامہ بازیاں – سائرہ بلوچ

214

جبری گمشدہ افراد کمیشن و جی آئی ٹی اور ڈرامہ بازیاں

تحریر: سائرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان میں کسی سنگین مسئلے کو التوا کا شکار کرنا ہو تو حکمران ایک کمیشن بنا دیتے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگی کےسنگین  مسئلے کو حل کرنے کے لئے اب تک سینکڑوں وفاقی اور صوبائی کمیشن بنائے جاچکے ہیں لیکن یہ کمیشن جبری گمشدہ افرادکے لواحقین کے مسائل کم کرنے کے بجائے اُنہیں زہنی ازیت کا شکار بنارہے ہیں۔ جبری گمشدگی کو روکنے کے لئے بل بھی پاکستانکے قومی اسمبلی اور ایوان بالا میں پیش کیا گیا لیکن وہ بل بھی جبری گمشدہ افراد کی طرح اب تک گمشدہ ہے۔

جی آئی ٹی بنائی گئی تاکہ جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جاسکے لیکن وہاں جبری گمشدہ کے لواحقین کو دباؤ دیا جاتا ہیکہ آپثابت کریں کے آپ کے پیارے جبری گمشدہ ہیں۔ جبری گمشدگی کے ثبوت مہیا کرنے پر جی آئی ٹی میں مختلف اداروں کے اہلکار یاافسران لواحقیں کو زہنی ازیت پہنچانے کے لئے نازیبا سوالات سے بھی گریز نہیں کرتے اور ثبوت کے باجود لواحقین پر سختی سے زوردیتے ہیں کہ آپ لوگ دوسرے ملک کے ایجنسیوں کے لئے کام کررہے ہیں تاکہ ملکی اداروں کو بدنام کرسکیں۔

میرے بھائیوں کی جبری گمشدگی میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے ہی اُن کے تصاویر میڈیا میں شائع کئے ہیں۔ میرےبھائیوں کے ساتھ جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں لیکن جی آئی ٹی میں اِن ثبوتوں کے باجود سیکیورٹیاداروں کے افسران ماننے سے انکاری ہیں کہ میرے بھائی اُن کی تحویل میں ہیں اور تواتر سے تکرار کرتے ہیں نوشکی سے افغانستانکا بارڈر نزدیک ہے ہوسکتا ہیکہ آپکے بھائی افغانستان  چلے گئے ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی خیال ہے۔

میرے بھائیوں کے تشدد زدہ تصاویر، اخبارات میں اُن کے جبری گمشدگی کے نیوز او ویڈیو کلپ موجود ہیں جس میں سیکیورٹی ادارےباقاعدہ تسلیم کر رہے ہیں کہ میرے بھائی انکے تحویل  میں ہیں لیکن اِن ثبوتوں کی موجودگی کے باجود جی آئی ٹی میں موجود افسرانہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کو خود تلاش کریں اور ہمارے کیس کو برطرف کرنے کی لئے اِن سارے ثبوتوں کو جھوٹ قراردے رہے ہیں۔ اُن کے رویے اور ہمارے کیس کو برطرف کرنے لے لیے دباؤ دینا ثابت کرتا ہیکہ میرے بھائی اُن کے تحویل میں ہیں۔

میرے بھائیوں کے ہمراہ جو دوست جبری گمشدہ ہوئے ہیں اُن کی بازیابی کے بعد اُنہیں دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اپنے خاندانوں کیحفاظت کی ضمانت چاہتے ہیں تو آصف اور رشید کی جبری گمشدگی کی جی آئی ٹی یا کمیشن میں گواہی دینے سے گریز کریں۔بازیاب ہونے والے جبری گمشدہ افراد کو دھمکی دے کر بیانات قلمبند کرکے اُن پر باقائدہ دستخط لئے گئے ہیں کہ وہ بازیاب ہونے بعدکسی بھی ادارے میں پیش ہوکر گواہی نہیں دیں گے۔

جبری گمشدہ افراد کے دستخط شدہ بیانات میں وہی تکرار دہرائی گئی جو جی آئی ٹی میں موجود سیکیورٹی اہلکار تواتر سے دہراتےہیں۔

اِن بیانات میں لکھوایا گیا ہیکہ ہم کبھی جبری گمشدگی کے شکار نہیں ہوئے اور ہم آصف اور رشید کو پہچانتے نہیں ہیں۔

اُنہیں دھمکی دے کر کہا گیا ہیکہ اگر آپ لوگوں کو کبھی  جی آئی ٹی یا کمیشن کی طرف سے گواہی دینے کے لئے بلایا گیا تو یہ کہناہیکہ ہماری آنکھوں پر پٹھیاں باندھے گئے تھے جس کی وجہ سے ہم ان افراد کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔

یہ بیانات اور دھمکیاں سیکیورٹی اداروں کی بھوکلاہٹ کو آشکار کرتے ہیں کہ وہ ایک طرف جبری گمشدگی سے ہی انکاری ہیں اوردوسری طرف بازیاب ہونے والے جبری گمشدہ افراد سے بیانات قلمبند کرارہے ہیں کہ وہ دوسرے جبری گمشدہ افراد کو پہچاننے سےقاصر ہیں۔

میرے بھائیوں کے ہمراہ جبری گمشدگی کے شکار ہوئے بلال احمد ولد میراحمد بازیاب ہوچکے ہیں اور اُن سے بھی بیانات قلمبند کرکےدستخط لیے گئے ہیں ۔ جبری گمشدگی کے کمیشن نے اُن سے جبری گمشدہ افراد کے متعلق جاننے کے لئے رابطہ کیا تو بلال احمد کےگھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنا زہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔

بلال احمد سمیت بیشتر بازیاب جبری گمشدہ افراد پر شدید تشدد کیا گیا جس کی وجہ وہ نفسیاتی مسائل کے شکار ہیں۔ بلال احمدپاکستانی ٹارچر سیلوں میں ازیتیں سہہ کر زہنی توازن کھو بیٹھا ہے اور میرے بھائیوں سمیت ہزاروں جبری گمشدہ افراد انہی ٹارچرسیلوں میں ازیتیں سہہ رہے ہیں۔

ہمیں تسلسل سے جی آئی ٹی میں بلا کر نفسیاتی اذیت دی جارہی ہے۔ ایک دفعہ میرے والد جی آئی ٹی میں میرے ساتھ پیش ہوئے،سیکیورٹی اداروں کے افسران نے ہمیں دھمکی دی اور میرے والد سے برا سلوک کیا گیا جس کے بعد والد کی طبیعت شدید خرابہوگئی۔

ہمارے بھائیوں کے جبری گمشدگی کی پیروی سے روکنے کے لئے ہمیں دباؤ دیا جارہا ہے ۔ میرے چچا زاد بھائیوں کو خضدار سےجبری گمشدہ کرکے کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے انہیں دہشت گرد کے طور پرمیڈیا کے سامنے پیش کیا۔ میں واضح کرنا چاہتی ہوں اگرمیرے خاندان کے کسی فرد کو کوئی نقصان ہوا اسکی زمہ دار پاکستان کے سیکورٹی ادارے ہوں گے۔ ریاستی اداروں کا دباؤ اور ظلمؤ ستم ہمیں ہماری جدوجہد سے دور نہیں کرسکتا، میں اپنے بھائیوں کے بازیابی تک جدوجہد جاری رکھوں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں