ریاستی کمیشن بلوچستان میں ہونے والے مظالم کا مداوا نہیں کرسکتی – بی ایس او آزاد

279

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں قائم کردہ کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ہر سال عوامی رائے کو تبدیل کرنے اور بلوچستان میں جاری ظلم و جبر پر پردہ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی کمیشن ترتیب دیتی ہے اور اسی تسلسل کو اپناتے ہوئے رواں سال بھی ایک کمیشن بنائی گئی ہے جو اس وقت بلوچستان کے دورے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ریاست کی جانب سے ایک انسانی حقوق کی کمیشن بنائی گئی تھی جو بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے لاپتہ افراد کے لواحقین کو مزید ہراساں کرنے کا باعث بنا تھا۔ اس طرح کے کمیشن ریاست اداروں کے ایما پر بنائے جاتے ہیں اور ہمیشہ ہی ریاستی اداروں کے پیرول پر کام کرتے ہیں لہٰذا ریاستی اداروں کے پیرول پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کمیشن کسی بھی صورت غیر جانبدار نہیں ہو سکتے ہیں اور ہمیشہ ہی ریاستی بیانیے پر چلتے ہوئے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے مزید ہراسگی کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان میں ایک نہایت ہی گمبھیر مسئلہ ہے اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اس وقت ریاستی قید خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ جہاں ریاست اور پارلیمانی سیاست میں شریک بلوچ سیاسی پارٹیاں کریڈٹ خوری کے تحت آئے روز مختلف کمیٹیاں اور کمیشن قائم کرتے ہیں تو دوسری جانب درجنوں بلوچ روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگی کا شکار ہو رہے ہیں اور بعدازاں جبری گمشدگی، انہیں جعلی مقابلوں میں شہید کیا جا رہا ہے۔

اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ پارلیمانی سیاست میں ملوث بلوچ سیاسی پارٹیاں اور ان کے سربراہان بھی ریاستی اداروں کے زیر اثر رہ کر مختلف کمیشنز کے تحت بلوچ ماؤں کو مزید امید اور دلاسے دیکر اذیت دے رہے ہیں۔ بلوچ عوام ریاست کے تمام تر حربوں اور ریاستی حواریوں کے پالیسیوں کا ادراک رکھ کر پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف قومی جدوجہد کا حصہ بنے کیونکہ آزاد بلوچستان ہی خوشحالی اور امن کا ضامن ہے۔