فکرِ استاد نقطہِ آغاز، منزلِ جنرل، بقاء کے لئے ایندھن ۔ ڈاکٹر ہیبتان بشیر

858

فکرِ استاد نقطہِ آغاز، منزلِ جنرل، بقاء کے لئے ایندھن

تحریر: ڈاکٹر ہیبتان بشیر

دی بلوچستان پوسٹ 

استاد اسلم ایک ایسا کردار، سچا داستان اور زندہ تاریخ ہے، شاید ہم میں سے کوئی اسے پوری طرح سمجھ اور پا ناسکے۔ایک مخلص سپاہی سے ایک قابل کمانڈر تک،ایک اہم کمانڈر سے معطل مجرم تک، معطل مجرم سے چیف آف کمانڈ تک، اور چیف آف کمانڈ سے شہادت تک ناجانے کتنے اُبھار اور پستیوں سے گزر کر پہاڑوں کی اونچائیوں سے بھی اونچی ہمت،حوصلہ اور طاقت قوم کو عطا کرکے خود ہمشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔اس بائیس سالہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد جسے میں نے 2000 سے محسوس کیا اور دیکھا ہے، اس پوری جدو جہد کا روح اگر میں استاد اسلم کو سمجھوں تو شاید میں غلط نہیں رہوں گا۔کیونکہ استاد کی لازوال قربانیوں کی بدولت اس کے کاروان کے مخلص ساتھی اس مقام تک پہنچے ہیں کہ وہ اپنے پورے وجود کے زرےزرے کو قربان بھی کریں تو وہ اسے کم اور ناکافی سمجھیں گے۔

بقول استاد اسلم، شہید بالاچ کے یہ الفاظ کہ”ہم بدل سکتے ہیں۔ہم ضرور بدلیں گے اور ہم نے ہی بدلنا ہے، چاہے ہماری جان جائے، گھر،بچے، خاندان، عیش و آرام سب کچھ قربان کرکے اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو بھی مجھے پرواہ نہیں کیونکہ ہم اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ راہ نجات واضح کرکے جارہے ہیں اور تاریخ میں اپنے فرض کی بابت کسی بھی خوف و لالچ میں آئے بغیر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے شہداء اور اکابرین کے نقش قدم پر چل کر سرخروہوں گے۔”

یہ میرا مستحکم ایمان ہے کہ ہم ضرور سرخرو ہوں گے، جیت ہماری ہی ہوگی اگر ہم ہمت و حوصلوں کے ساتھ جانبِ منزل رہے۔

کیونکہ جنگ ہمت اور حوصلوں سے جیتی جاتی ہے ناکہ جدید اسلحوں اور بڑی بڑی ٹینکوں اور جیٹ طیاروں سے۔ ہمت اور حوصلوں کی پرورش فکری اور نظریاتی بنیادوں سے ہوتی ہے نا کہ لالچ ،مکاری، پیسوں ،ڈر اور خوف سے۔ جب تک ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ کے تکلفیوں اور مصیبتوں سے ڈرے ہوئے اور تھکے ہوئے نہ ہوں اور اپنی ہمت اور مضبوط حوصلوں سے دشمن کو ڈر اور خوف میں مبتلا رکھے ہوئے ہوں تو سمجھو ہماری جیت اور دشمن کی شکست ہوئی ہے۔کیونکہ یہ بات تاریخ کے صفحوں پہ سچ ثابت ہوئی ہے کہ قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوئی ہیں، قومیں اسوقت ختم ہوجاتی ہیں جب ان میں ہمت اور حوصلے دفن ہوجائیں ۔ جب تک ہم میں ہمت اور حوصلہ باقی ہے تو ہمیں کوئی بھی طاقت اور قوت زیر اور جبرا اپنے تسلط میں نہیں رکھ سکتا۔

یہ سارافلسفہِ قربانی ،ہمت اور حوصلہ ہمیں استاد کی کردار اور اعمال سے واضح طور پر نظر آتا ہے،کہ شہید ریحان کی فدائی حملے کے بعد(جس سے پوری بلوچ جنگ اوراور جہد بدل گئی) بہت سے لوگ استاد کو اس عمل پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو استاد کے وہ الفاظ آج بھی دوستوں کے دل اور روح میں گردش کرئے ہیں کہ”مجھے اس عمل پہ کوئی افسوس اور پشیمانی نہیں، اگر میرے باقی بیٹے اور بیٹیاں اس راہ کا انتخاب کریں تو میں بخوشی انہیں اس قربانی کی راہ پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، میں کہتا ہوں کہ ریحان میرا نہیں تھا بلکہ وہ ہم سب کا تھا اور اس قوم کا تھا۔ ریحان نے اپنی قوم اور آزادی کے لیئے قربانی دیا ہے۔ وہ اگرمیرے اور اپنی والدہ کے لیئے کرتا تو بیٹھ کر ہماری خدمت ہی کرتا۔”

یہی فکرِ اسلم اب روشنی بنکر ہر سچے بلوچ کے دل میں سمایا ہوا ہے۔ یہی طرزِ اسلم اب چٹان بنکر ہر مخلص جہدکار کی رہنمائی کررہا ہے اور حصولِ منزل تک کرتا رہے گا۔ استاد اسلم کی عظمت اور ہمت نے ایک زندہ تاریخ رقم کرکے ہزاروں روشن دریچے کھل دیئے ہیں جنکی روشنی آزادی کی نوید ہوگی۔

استاد آج ہمارے لئے ہمت،حوصلہ اور مستقل جد و جہد کے روشن نقش اور نشان بنے ہوئے ہیں۔ ایسی قوت ، توانائی اور ایندھن عطا کرگئے ہیں کہ قرنوں تک ایسی توانائی اور ایندھن سے ہم میں ہماری تاریکی روشن ہوتی رہے گی۔ استاد کے مسقل جد و جہد سے ہمیں یہ درس ملا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سخت،درد اور مصیبتوں سے پَر ہوں ہم اپنی ہمت،حوصلہ،مخلصی ،نیک نیتی اور مسقل جد و جہد سے سب کچھ بدل سکتے ہیں اور تاریکی میں روشن ستارے روشن کرسکتے ہیں۔

استاد اسلم کی عظمت،ہمت،حوصلہ اور مسقل جدوجہد کا اندازہ ہم سنگت بشیر زیب کے ان الفاظ سے کرسکتے ہیں کہ “استاد اسلم اپنے دور سے بہت آگے تھا۔ جنرل گیاپ، ہوچی منہ، چی گویرا وغیرہ جن معاشروں میں پیدا ہوئے اور جب انقلابات کا حصہ بنے، وہاں معاشرے انقلاب کیلئے تیار تھے، لیکن جنرل اسلم شاید وقت سے پہلے پیدا ہوئے، وہ صرف آٹھ ساتھیوں کے ہمراہ تھے اور معاشرہ ایک تحریک کیلئے تیار نہیں تھا۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انکی طرح استاد اسلم بھی انقلاب کیلئے پہلے سے ہی ہموار ایک معاشرے میں پیدا ہوتے تو وہ ان متذکرہ شخصیات سے بھی کئی گنا زیادہ جانے مانے عالمگیر شخصیت بن جاتے۔ وہ بلوچ سماج میں ایک بہادری کے علامت بن گئے ہیں، وہ جدید بلوچ گوریلہ وارفیئر کے بانی ہیں۔ جیسے جیسے تاریخ کا پہیہ آگے حرکت کرے گا تو نسل نو درست احاطہ کرپائے گی کہ آج جو تبیدلیاں اسلم نے لائیں، جو چیزیں انہوں نے متعارف کئیں، وہ کیسے تاریخ کا دھارہ بدل دیں گی، اور پھر جنرل اسلم کے کردار کے ساتھ شاید مکمل انصاف ہوپائے گا۔”

استاد پر دشمن اور دوست نما دشمنوں کی طرف سے جتنے بھی الزامات، پروپگنڈے اور جھوٹے قصے بنائے گئے استاد نے اپنی کردار اور عمل کی قوت اور طاقت سے سب کو نگل کر پارہ پارہ کردیا اور خود شمع بنکر اپنے محور میں پروانوں کی لشکر سجائی اور ان پروانوں کا فلسفہ استاد اسلم کے یہ الفاظ ہیں کہ “بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کی آزادی صرف اور صرف ایک خطرناک، دردناک اوربھیانک جنگ میں ہے اور اس جنگ کی کامیابی میں ہے۔ اگر ہم اس جنگ کو جیتینگے اور ہمارے دشمن کو شکست دیں گیں، تب ہی ہمارا مقصد پورا ہوگا۔ آج ہم جو کررہے ہیں اس سے آگے بڑھ کر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے کچھ نہیں کیاہے کیونکہ کئی گھر، کئی گاؤں مٹ گئے، کئی جانیں چلی گئیں، کئی نوجوان مارے گئے، ہماری ماں بہنوں کے زخموں کا مداوا صرف دو یا دس قربانیوں میں نہیں ہے۔ جب ہماری سرزمین کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہوگا اور ہم اپنے سرزمین کے مالک ہونگے وہی ایک فتح ہوگی، اس سے کم کچھ نہیں ہے، اگراس سے کچھ کم ہے تو وہ یہی موت ہے جو ہمارے ساتھی قبول کرتے آرہے ہیں اور کررہے ہیں۔” 

25 دسمبر کے دن استاد ا اسلم پنے دیگر پانچ ساتھیوں شہید اختر جان، شہید کریم جان، شہید سرداروجان، شہید فرید جان اور شہید صادق جان کے ساتھ جسمانی طور پہ ہم سے جدا ہوجاتے ہیں۔لیکن اپنا فکر ،سوچ ،کردار اور نظریہ ہمارے دل، روح اور ذہن میں نقش کرکے بلوچ قومی آزادی کی تعریک کو کامل ایندھن فراہم کرکے ہم پہ یہ ذمہ داری چھوڑتے ہیں کہ ہم تمام بلوچ شہدا کے عظیم مشن کو منزل تک پہنچا سکیں۔

 آج ہمیں اپنی سوچ اور کردار کا محور بلوچ قومی آزادی کی جہد اور اپنی آزادی پر رکھنا ہے اس کے لئے آج ہمیں جرت مندانہ فیصلے لینے ہونگے، ایسے فیصلے جو اپنی ذات سے اوپر ،اپنی خواہشات اور آسائشوں سے پرئے ,اپنے روح ،جسم اور ذہن کو شدید سے شدید مشکلات سے گزارنا ہے تاکہ ہم سخت سے سخت قالبوں میں خود کو سما سکیں کیونکہ انہی جرت مندانہ فیصلوں سے ہی ہماری قومی بقاء ،آنے والی نسلوں کی خوشحال مسقبل کا مقدر پوشیدہ ہے۔اگر ہم واقعی ہی غلامی کی لعنت اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے شدید خواہش رکھتے ہیں تو ہر لمحے کو قومی آجوئی کی تحریک کے لئے وقف کریں بنا کسی غرض اور مطلب کے سوائے اپنی آزادی کے۔اپنی آزادی کی خاطر اپنی ہر اس فطرت کو بدل دینا ہے جو ہمارے پاؤں میں غلامی کی زنجیروں کو اور مضبوط کرے ۔جو ہماری آزادی کے لئے بہتر سے بہتر ہو اسی کا انتخاب کریں اور اپنی آنی والی نسلوں کے لئے آزادی چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجائیں۔وگرنہ آج کی عیاشوں اور خواہشات میں غرق ہوکر یا خوف اور بزدلی یا وقت کے تقاضوں کو نا سمجھتے ہوئے ہم جرت مندانہ فیصلے لینے سے ڈر گئے تو یقین جانو کہ ان وقتی ،عرضی اور چند لذت کی خاطر ہم ایک پوری نسل ،ہزاروں سالہ تاریخی قوم کو دائمی غلامی اور اختتام کے لئے چھوڑ رہے ہیں۔ کیا اپنی پوری نسل کے لئے دائمی غلامی محض اپنی چند لاحاصل خواہشات اور ڈر و خوف کی وجہ سے قبول کرنا ظلم کی انتہا نہیں؟

انسانیت ،آئین ،انسانی حقوق اس دیس کی باتیں ہیں جہاں انسان بہت سے تخریب اور شدت سے گزر کر آج خود کو مہذب بنانے کی جستجو میں ہیں، جہاں انسان اور انسانیت کی قدر ہے۔ لیکن ہمارا دشمن انسانیت کے اے۔بی۔سی سے ابھی واقف نہیں، وہ اگر تھوڑا بہت خود کو مہذب دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی ہمیں بے وقوف بنا کر، دھوکہ اور فریب دے کر ہماری اصل حدف اور مقصد سے ہماری توجہ ہٹا کر ہماری غلامی کو اور مضبوط بنا رہا ہے۔ مہذب دنیا ہو یا سامراجی طاقتیں یا انسانی فطرت وہ کھبی بھی تمہاری انسانیت دوستی ، نیک دلی یا تمہاری انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہمیں صحیح یا غلط کہیں یا سمجھیں، وہ بس طاقت اور مفادات کی بنیاد پر درست اور غلط کا تعین کرتے ہیں۔اب یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم اپنے لئے کس کا انتخاب کریں گے۔

آج اگر واقعی ہم شہیدوں کے خون سے وفا رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا سارا وقت اور طاقت اسی سوچ کو دینا چاہئے جسکے لئے شہیدوں نے قربانیاں دی ہیں۔ انتہاء سے بھی اوپر اپنے پورے وجود کو بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے لئے وقف کرنا ہے۔ اس کے لئے سخت سے سخت مشکلوں ،مصیبتوں اور چیلنچز کے لیے خود کو ندر اور تیار کرنا ہے۔

کیونکہ محض خواہشات،آرزوں اور تمناوں سے اس منزل کی رسائی ممکن نہیں جسکے لئے شہیدوں نے اپنی ذات کو بے غرض ہوکر اپنے پورے وجود کو قربان کردیا ہے۔جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر پختہ یقین رکھیں ، یہی پختہ یقین ہمیں جانبِ منزل عمل پر گامزن رکھتی ہے ۔ جو کچھ ہمُ تبلیغ کرتے ہیں اس پر عمل لازمی ہے۔ پختہ یقین اور عمل ہماری جیت اور فتح کی کنجی ہے۔ راستے چاہے کتنے ہی دشوار اور مصیبتوں سے پرُ ہوں ہمیں پختہ یقین اور با ہمت ہوکر جرت مندانہ عمل کے ساتھ آگئے بڑھنا ہے ۔ یہی ہمارے شہیدوں کے لہو سے وفا کا تقاضہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹاس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں