سکیورٹی ادارے بلوچ طلبا کے جبری گمشدگیوں میں مزید شدت لا رہے ہیں – بساک

159

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں طلباء کی جبری گمشدگیوں میں شدت کی نئی لہر پر  تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی ادارے روایتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر طاقت اور تشدد کے ذریعے طالبعلموں کی آوازکو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں اور تسلسل کے ساتھ طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔  ایسے غیر قانونی عملطالبعلموں میں مزید خوف و ہراس اور اُن کے تعلیمی کیرئیر کو متاثر کرنے کا سبب بنیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ماہ 26 ستمبر 2022 کو کراچی کے علاقے لیاری کے رہائشی ایک بلوچ طالبعلم گلشاد بلوچ کو جبریطور لاپتہ کیا گیا اور کل بروزمنگل ایک اور بلوچ طالبعلم سعود ناز کو وِندر سے لاپتہ کیا گیا۔ طالبعلموں کی جبری گمشدگی کا یہ پہلاواقعہ  نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی درجنوں طالبعلم جبری گمشدگییوں کے اس غیر قانونی عمل کا شکار ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال قبلیکم نومبر 2021 کو بلوچستان یونیورسٹی شعبہ مطالعہ پاکستان کے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جامعہ کے ہاسٹل سےجبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور طالبعلموں کی ایک ماہ طویل دھرنے کے باوجود تاحال اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس کے علاوہایریڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی  کے طالبعلم فیروز بلوچ کو بھی یکم  مئی 2022 کو راولپنڈی سے لاپتہ کیا گیا۔  فیروز کے دوستوں اورساتھیوں کی احتجاجی دھرنے اور ریلیوں کے باجود تاحال انھیں منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس طرح طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہکرنا اور سالوں منظر عام پر نہ لانا آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ طالبعلموں کو تسلسل کے ساتھ بزور طاقت جبری طور پر گمشدہ کرنا طالبعلموں میں مزید خوف و ہراسپھیلانے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے غیر قانونی اور غیر انسانی عمل طالبعلموں کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کا سبب بنیں گیاور سینکڑوں طالبعلم اپنی تعلیمی کیرئیر کو جاری رکھنے سے قاصر ہوں گے۔ بلوچ طالبعلموں کو ایک منظم سازش کے تحت جبریطور گمشدہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی محرک طالبعلموں کو تعلیم کے میدان سے دور رکھنے اور بلوچ سماج میں اعلی تعلیم کےحوالے سے ایک ایسے رائے کو پروان چڑھانے کی کوشش ہے کہ  بلوچ عوام اپنے بچوں کو تعلیم سے دور رکھیں۔ اس طرح کے ہتھکنڈےکسی بھی صورت قبول نہیں  اور ایسی پالیسیاں بلوچ نوجوان کو علم و شعور کے میدان سے دور نہیں رکھ سکیں گے۔

اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ طالبعلموں کی جبری گمشدگی جیسے گھناؤناعمل میں تیزی کے خلاف تمام طلبا تنظیموں کویکجا ہو کر جدوجہد کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ طلبا کی جبری گمشدگی میں لائی جانے والی تیزی کے خلاف26 اکتوبر کو بلوچاسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے #SaveBalochStudents کے ٹیگ سے ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ چلائی جائے گی۔ ہم تمام  طلبا تنظیموں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ  مذکورہ کیمپین میں حصہ لیتے ہوئے بلوچ طالبعلموں  کیجبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔