بلوچستان میں اشیائے خورونوش ناپید ہوتی جا رہی ہیں

164

بلوچستان کو شدید غذائی بحران کا سامنا ہے۔ صوبے کی اکثر فلور ملز گندم کی عدم دستیابی کے باعث بند ہیں۔

حالیہ سیلاب سے بلوچستان میں دو لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ بارشوں سے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کے باعث بلوچستان کو پاکستان کے دیگر حصوں سے ملانے والی کئی سڑکیں تاحال بند ہیں۔ گندم کی شدید قلت کے باعث صوبے کی چالیس میں سے 25 فلور ملز بند ہو چکی ہیں، جو فلور ملز کھلی ہیں ان کے مالکان نے بھی گندم کی عدم دستیابی پر احتجاج کرتے ہوئے ملز کی بندش کا اعلان کیا ہے۔

فلور ملز ایسوسی ایشن پاکستان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کو اس وقت شدید بحرانی کیفیت کا سامنا ہے مگر حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہے۔

فلور ملز کے پاس گندم کا کوٹہ ختم ہو چکا ہے۔ گندم نہ ہونے کی وجہ سے فلور ملز سے اوپن مارکیٹ کو آٹا فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ سو کلو گرام آٹے کی ایک بوری کی قیمت 13 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔”سرکاری اور نجی گوداموں میں پڑی ہوئی گندم بڑے پیمانے پر خراب ہوئی ہے

بلوچستان کی اوپن مارکیٹ سے گندم کی خریداری کا سالانہ ہدف دس لاکھ بوری گندم ہے۔ رواں سال حکومت سطح پر اوپن مارکیٹ سے صرف 2 لاکھ 95 ہزار بوری گندم کی خریداری کی گئی تھی۔ دوسری طرف سیلاب کی وجہ سے بھی سرکاری اور نجی گوداموں میں پڑی ہوئی گندم بڑے پیمانے پر خراب ہوئی ہے۔ یہ گندم گوداموں میں محفوظ مقامات کے بجائے کھلے آسمان تلے رکھی گئی تھی جو کہ سیلابی ریلوں میں بہہ گئی۔”

بلوچستان میں اس وقت ٹماٹر، آلو، پیاز اور دیگر سبزیاں سیلاب کی وجہ سے ناپید ہو چکی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے بلوچستان کے 34 میں سے 33 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ غذائی قلت کا مسئلہ بہت تیزی کے ساتھ بلوچستان کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اوپن مارکیٹ سے اشیائے خورونوش کی اب بلیک میں فروخت ہونے کی بھی شکایات سامنے آئی ہیں۔