کٹھ پتلی صوبائی اسمبلی اور اسکے ارکان بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں – ماما قدیر بلوچ

250

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ کو 4674 دن مکمل ہوگئے-

آج بی ایس او کے رہنماؤں اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کی-

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ مختلف وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ محکوم قوم کیلئے ہر دن ایک جیسا گزرتا ہے، ہر صبح کا آغاز نئے جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے شروع ہوتا ہے، باقی مہینوں کی طرح مئی کے پورے مہینے اور جون میں بھی بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تسلسل سے جاری رہا ، اور اس میں مزید شدت ریکارڈ ہوا ہے-

انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں جبری لاپتہ دو افراد کی دوران حراست شہادت بھی ہوئی ہیں جو انتہائی تشویشناک ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین سالوں سے بند اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے میں شدید پریشان ہیں انہیں بھی خدشہ ہے کہ انہیں دوران حراست تشدد کرکے شہید کیا جائے گا-

انہوں نے کہا کہ انسانیت سوز مظالم، نسل کشی، جبری گمشدگیاں، فوجی آپریشنز اور ماورائے عدالت قتل سامراج کی قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کے زرائع ہیں-

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کیچ، خاران، آواران، خضدار اور دوسرے علاقوں میں فوجی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا ہے، جس سے عام آبادی شدید متاثر ہو رہے ہیں،
کٹھ پتلی صوبائی حکومت اور اسکے ممبران بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں، اور مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں-