بلوچستان میں مسلح جدوجہد اسلامی یا غیر اسلامی – بلوچ علماء کی بحث

1828

مکران سے تعلق رکھنے والے بلوچ علماء کا آزادی یا پاکستان زیر انتظام رہنے پر مباحثہ، اکثر علماء نے قومی آزادی کی حمایت اور غلامی سے چھٹکارے کی مسلح جدوجہد کو شرعی دلائل کے ساتھ ثابت کیا جبکہ ملا شاہ میر عزیز اور غلام اللہ رستم نے پاکستان کے زیرانتظام رہنے کو اسلامی قرار دیا۔

مکران سے تعلق رکھنے والے علماء نے علماء کی سوشل میڈیا گروپ پر قومی غلامی یا بلوچستان کی آزادی کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل اور ثبوت پیش کیے۔ علما کی اکثریت نے قومی غلامی کو ایک لعنت اور اسے اسلامی احکامات کے ذریعے جہاد اور جدوجہد کے ذریعے ختم کرنے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام نے بیرونی یلغار اور قابض کے خلاف جہاد کے ہر قسم کی واضح ہدایات دی ہیں۔ علماء کا کہنا ہے کہ اللہ کے آخری نبی نے انسانوں کو آزادی کا درس دیا اور انہیں بیرونی طاقتوں کی غلامی سے نفرت اور آزادی کے لیے لڑنے کو کہا۔

علما نے اپنی سرزمین اور جائے پیدائش سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر اللہ کے نبی نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے نم ناک آنکھوں سے روانگی سے قبل ایک نظر مکہ مکرمہ کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اے مکہ گواہ رہنا ہم ضرور دوبارہ آئیں گے اور یہاں ہی بسیں گے۔ علما نے کہا کہ اس سے زیادہ اپنی زمین سے محبت کا ثبوت اور کیا ہوسکتی ہے۔

علماء نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شریعت نے زمین کی حفاظت فرض قرار دیا۔ حدیث میں ہے کہ جو آنکھ زمین کی حفاظت میں ساری رات نیند سے دور ہو اس پر دوزخ حرام اور جنت واجب ہے اس سے زیادہ اسلامی تعلیمات میں آزادی کی اہمیت اور کیا ہوسکتی ہے۔

علما نے کہا کہ وطن کی آزادی کے لیے جب کشمیر، فلسطین، چیچنیا، افغانستان میں جنگ لڑنا فرض ہے تو بلوچستان کی آزادی کے لیے کیوں نہیں ہے، یہ دوہرا معیار ترک کرکے بلوچ علماء کو جنگ آزادی کی حمایت کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جو سرمچار پہاڑوں پہ چڑھ کر زندگی کی قیمت پر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں وہ جہاد افضل کا حصہ ہیں اور اس راہ میں جو شہادت پاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جنت کے اعلیٰ ترین مقام ہیں۔ فدائی شاری بلوچ کا ذکر کرتے ہوئے اکثر علماء نے اسے سراہا اور کہا کہ بیرونی قابضین کے خلاف غلام قوموں کا آخری ہتھیار جنگ ہے اور جنگ جس صورت میں لڑا جائے وہ برحق ہے، شاری بلوچ نے فدائی حملہ کرکے بیرونی قابض دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے ملا شاہ میر عزیز اور غلام اللہ رستم نے بلوچ جنگ آزادی کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان قابض نہیں ہمارا ملک ہے اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا یا سیاسی مزاحمت کرنا اسلامی تعلیمات کی رو سے گناہ کبیرہ ہے اور سرکشوں کے خلاف ریاست کی کارروائی لازمی ہے تاکہ ان کی سرکوبی کی جاسکے۔

انہوں نے کہا پاکستان اسلامی ریاست ہے کسی کو ایک اسلامی ریاست کے خلاف جنگ کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے ریاست کی پر تشدد پالیسیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ سرکشی کے خلاف کارروائی کا حکم اسلام دیتا ہے۔

انہوں نے شاری بلوچ کی فدائی حملے کو ناجائز اور گناہ کہتے ہوئے کہا کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے لہٰذا شاری بلوچ نے خودکشی کرکے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔