لابنگ کے منفی اور مثبت اثرات ۔ شہزاد کولواہی

452

لابنگ کے منفی اور مثبت اثرات

تحریر: شہزاد کولواہی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ جنگ آزادی کی جدوجہد دو دہائی سے زیادہ اپنے منزل کی جانب گامزن ہے۔ اس جنگ میں بلوچ قوم کو بہت ساری کامیابیاں اور پزیرائی ملی ہیں لیکن ان میں سے کچھ غلطیاں دانستہ یا نادانستہ طور پر ہوئی ہیں، ہماری سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ ہم نے اپنے پلیٹ فارموں میں وہی لابنگ کی جو مثبت ثابت نہیں ہوئے۔

لابنگ تنظیم، پارٹی، حکومت اور ملکوں میں کیے جاتے ہیں اگر لابنگ کسی کمزور پارٹی میں کیے جائیں تو بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا جس سے بہت نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔

اکثر حکومتوں کو گرانے کے لئے لابنگ کامیاب ہوئے ہیں جس کے مثال ہمیں پاکستان میں بھی مل سکتے ہیں۔

پاکستان میں پارلیمانی جتنی بھی پارٹیاں ہیں وہ سب اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہیں پاکستان میں جتنی حکومتیں ہوئی ہیں سب اسٹیبلشمنٹ کے لابنگ سے ہوئے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے بلوچ سیاست کو کمزور کرنے کے لئے لابنگ کیا ہے جس کی وجہ سے پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوئے ہیں اور آج تک بلوچ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے لابنگ کے منفی اثرات پائے جاتے ہیں۔

بلوچ سیاست میں اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے مثبت کردار ادا کیا ہے، اس نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف پروگرامز کئے ہیں بلوچ عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوئے، جس کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں نے سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا یہی راز پاکستان کو راس نہیں آئی۔ اس نے طالب علموں کو تقسیم کرنے کے لیے لابنگ کی جس میں بلوچ سیاستدان بھی ملوث تھے۔

سیاستدانوں کا لابنگ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ اپنی لابنگ کو تنظیموں کا سربراہ کیا جائے تاکہ تنظیمیں ہمارے موقف اور پروگرام کو آگے لے جانے میں ساتھ دیتے رہے۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ لیڈروں میں اختلاف پیدا ہوتے گئے اور تنظیمیں تقسیم در تقسیم ہوتے گئے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم نے کسی تنظیم کو آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی، مُٹھی میں بند کرنے کی کوشش کی، کچھ رہ گئے کچھ نکل گئے۔

بلوچ سیاست میں لابنگ کے عارضی طور پر فائدے ہوئے ہیں لیکن اس کے نتائج منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کا خیمازہ بلوچ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

لابنگ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہم ہمیشہ ( گوک بوتگ ایں ھاک وتی سرءَ وت شانتگ ) بد قسمتی سے بلوچ سیاستدانوں نے اپنی پارٹی یا تنظیم کے اندر مخلص دوستوں کے خلاف لابنگ اور سازش کی ہے اور اسے ساتھیوں کو لالچی یا لاچار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بعض جگہوں میں ذات پات اور رشتے داریوں کے اثرات دیکھے گئے ہرگز ایسے عمل تنظیموں کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوتے ہیں۔

کیونکہ جہاں ہمیں لابنگ کرنے کی ضرورت تھی وہاں ہم ہمیشہ قاصر رہے ہیں بلوچ آزادی پسندوں کو چاہیے کہ پارلیمنٹ پرست پارٹیوں کے ساتھ ہزار سیاسی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود لابنگ کرنے کی ضرورت ہے مثلاً نیشنل پارٹی،بی این پی مینگل یا عوامی اور دیگر پارٹیوں میں اپنے لیے لابنگ پیدا کریں تاکہ جو کام برائے راست آزادی پسند پارٹیاں ڈائرکٹ نہیں کر سکتے وہ کام انڈائرکٹلی کیے جائیں۔ کیونکہ اندرونی بلوچستان میں آزادی کے نام پر اسپیس بہت کم رہ گئی ہے۔

اگر مسلح تنظیموں کی طرف دیکھیں تو اندرونی مسائل تک رسائی ابھی تک باقی ہے لیکن ظاہری صورت میں ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں اس کے ذمہ دار اور قصوروار کون۔ کون غلط کون صحیح اس کا فیصلہ ہم نہیں آنے والا وقت، تاریخ اور بلوچ قوم خود کرے گی۔

لیڈروں نے تپاکی اور یکجہتی کے لیے بہت کوششیں کی ہیں ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ جس مقام پر ہمیں جانا چاہیے تھا وہاں سے ہم ابھی تک بہت پیچھے رہ گئے ہیں کوئی لاعلم اور بے شعور نہیں پھر بار بار ایسا کیوں؟ اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بلوچ لیڈرشپ ہیروازم اور اناپرستی جیسی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیچارے قوم پر رحم کیا کریں۔ بلوچ کے لیڈرز یہی ہیں اور کوئی مسیحا نازل نہیں ہوگا
اب بلوچ لیڈرشپ کو ہیروازم اور اناپرستی سے نکل کر قومی مفادات کو ترجیح دےکر تپاکی اور یکجہتی پر متفق ہو کر سنجیدہ ہونے کی اشد ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں