نوکنڈی واقعہ کے خلاف تربت میں مظاہرہ

458

تربت سول سوسائٹی کے زیر اہتمام نوکنڈی چاغی میں گاڈی ڈرائیور کو سیکیورٹی فورسز کی طرف سے تشدد اور قتل کرنے کے خلاف تربت پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے تربت سول سوسائٹی کے کنوینر کامریڈ گلزار دوست نے کہا کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی جبر اور تشدّد روز کا معمول بن چکا ہے، سیکورٹی فورسز سے بلوچستان کا کوئی شہری محفوظ نہیں ہے، نوکنڈی میں مزدور اور گاڈی ڈرائیور سے صحرا میں ان کی گاڑیاں چھین کر ان پر تشدّد کیا گیا اور کئی کلومیٹر تپتی صحرا میں رمضان کے مقدس مہینے میں ان کو بھگا کر بھوک اور پیاس سے قتل کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ صحرا میں اب تک چار لاشیں ملی ہیں خدشہ ہے کہ مرنے والے ڈرائیوروں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں طلبہ اور سیاسی کارکنوں پر تشدّد، ان کی جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں ملنا معمول کی بات ہے جبکہ سرحدی علاقوں میں کاروبار پر بندش اور کاروباری لوگوں پر تشدد کا سلسلہ بھی نئی نہیں ہے اس سے پہلے ضلع کیچ میں بھی سیکورٹی فورسز نے ڈرائیورز پر تشدّد کیا ان سے جبری مشقت لیا گیا اور ان کو قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تربت سول سوسائٹی سرحدی علاقوں میں کاروباری افراد کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر معاملے میں ان کی آواز بنے گی۔

مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے آل پارٹیز کیچ کے سابقہ کنوینئر غلام یاسین نے کہا کہ ایف سی بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہے، ان کی موجودگی سے بلوچستان کے مسائل کم ہونے کے بجائے زیادہ ہورہے ہیں جب تک ایف سی کو بلوچستان سے بے دخل نہیں کیا جاتا لوگوں کی حالت اسی طرح ابتر ہوتی رہے گی، لوگوں کے جان ومال اور عزت نفس اسی طرح ایف سی کے ہاتھوں مجروح ہوتی رہے گی۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مسائل کا واحد حل ایف سی کو نکالنا ہے، ریاست بلوچستان میں شہریوں سے ماں جیسی سلوک نہیں کررہی ہے، لوگوں کو جرم کے بغیر پکڑ کر قتل کرنا کسی مہذب ریاست کا کام نہیں ہوسکتا۔

مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے رہنما یاور بلوچ نے کہا کہ نوکنڈی میں بارڈر کاروبار سے وابستہ لوگوں کی بے دردی سے شہادت 74 سالوں کا تسلسل ہے، اس سرزمین کے وسائل لوٹ کر اس کے باسیوں پر جبر و تشدد نئی بات نہیں، یہ ایک کثیرالقومی ریاست ہے قومیتوں کی شناخت اور پہچان مقدم ہونا چاہیے۔

مظاہرہ سے بارڈر ٹریڈ یونین کے رہنماؤں علی بخش بلوچ اور مبارک بلوچ نے بھی خطاب کیا۔