اے شبِ ہجوم ان سے کہہ دو، جون! اس جہاں کا نہیں ہے

442

اے شبِ ہجوم ان سے کہہ دو
جون! اس جہاں کا نہیں ہے!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

پہلے آئیے مشال خان کے لیے گردیو ٹیگور کی یہ دعا لکھیں جو گردیوٹیگور نے ہر اس انسان کے لیے لکھی ہے۔ جو بے موت مارا جائے۔ اس کا جسم تو دفن یوجائے پر پیچھے اس کی ماں اسے دیوانوں کے جیسے تلاش کرتی پھرے۔ مشال بھی قتل ہوا۔ اس کا جسم بھی دفن ہوا اور اس کی ماں اسے دیوانوں کی طرح اس آج بھی تلاش کرتی ہے۔ اسے آوازیں دیتی ہے اور بہت روتی ہے۔

گردیو ٹیگور نے لکھا کہ
“جب وہ مارے جائیں
جن کی مرنے کی موسم نہ ہو
جو بے موت مارے جائیں
اے خدا جب وہ تمہارے پاس آئیں
پر تمہارے پاس آنے سے پہلے
وہ خوشبوؤں میں نہائے جائیں
آسماں پر ان کے لیے تتلیاں اُڑیں
آکاش رنگوں سے بھر جائے۔
جب ان کی لاشیں اُٹھائی جائیں
یا ان کی ارتی جلائی جائیں
ان ماؤں کو صبر دینا خدا، جو بس مائیں ہیں۔
جو کچھ نہیں جانتیں۔”

پر کیا مشال کی ماں کو صبر ہے؟! جس کا بیٹا ولی خان یونیورسٹی گیا۔ پھر لوٹ کر نہیں آیا۔ پر اس کا جلا ہوا وجود آیا۔ جس پر کپڑے نہیں تھے۔ جس کے کپڑے ہجوم نے جلا ڈالے تھے۔ بس کپڑے ہی کیا۔ پھر اس کا وجود بھی ایسا تھا۔ جیسے لوگ بار بی کیو کا شوق کرتے ہیں۔ اسے گھسیٹا گیا۔ اس کے نفیس جسم پر ڈنڈے برسائے گئے۔ اسے پتھر مارے گئے۔ پر گولی تو بہت بعد میں ماری گئی۔ وہ گولی سے نہیں مرا تھا۔ گولی تو اسے جب ماری گئی تھی۔ جب اس کا جسم ۔ جسمِ منصور کی طرح سب اذیت سہہ چکا تھا۔ گولی تو اسے جب ماری گئی جب اس کا وجود، وجودِ سرمد کی طرح چٹیل میدان میں اداس پڑا ہوا تھا۔ گولی تو اسے جب ماری گئی جب اس کا وجود، وجودِ شاہ عنایت کی طرح انکار کی لذت سے محروم ہوچکا تھا۔ گولی تو اسے جب ماری گئی۔ جب اس کا وجود، وجودِ بلاول کی طرح چکی میں پس چکا تھا۔ پھر کوئی بدمعاش اُٹھتا ہے اور اپنے تھری بور کی سب گولیاں اس بار بی کیے جسم پر خالی کر دیتا ہے اور کورٹ کہتی ہے کہ اس کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ یہ تو اس گولی پہ الزام ہے جو نہ پتھر میں فرق جانتی ہے نہ گلاب کے پھول میں! جو گولی نہ ماں کے وجود کے فرق کو سمجھتی ہے نہ کسی وحشی جانور میں۔ وہ گولی جو اسی رفتار سے پتھر کو لگتی ہے اسی رفتار سے سینوں کو چیرجاتی ہے۔ وہ گولی جو کعبے کے غلاف کو بھی چیر دے گی اور کسی مندر میں رکھے بتوں کا بھی ستیا ناس کر دیتی ہے۔ وہ گولی تو مشال کو جب لگی۔ جب مشال بھج چکا تھا۔ جب وہ وہاں جا رہا تھا۔ جس کے لیے گردیو ٹیگور نے اپنی دعا میں لکھا تھا کہ

“تتلیاں آجائیں، آسماں کو خوشبوؤں سے بھر دے، پھول اُگ آئیں، اور مائیں صبر کریں!”

وہ گولی مشال کو اس وقت نہیں لگی تھی جب وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ کچھ سوچ رہا تھا۔ کچھ گنگنا رہا تھا۔ جو اپنے بالوں کو سنوار رہا تھا۔ جو اپنے فون پر اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھ رہا تھا۔ جب وہ اس پر کوئی اسٹیٹس لکھ رہا تھا۔ نہیں ایسا نہیں تھا۔

اسے تو اس ہاسٹل کے کمرے سے گھسیٹا گیا تھا۔ اسے بالوں سے پکڑ کر بہت تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے پاس تو بس ایک جسم تھا جس جسم کا کچھ وزن تھا۔ کچھ قد کھاٹ تھا۔ اور اس جسم پر کپڑے ڈھکے ہوئے تھے۔ پر وہ تو ہجوم تھا۔ اس ہجوم کے کئے ہاتھ تھے۔ ان ہاتھوں میں تشد د کا سامان تھا اور وہ ہجوم اسے اس ہاسٹل سے مارنا شروع کرتا ہے۔ جب تک وہ میدان نہیں آجاتا۔ جس میدان میں اس کے سر پر بہت بڑا ڈنڈا مارا جاتا ہے۔ جس ڈنڈے کے لگنے سے اس کے مردہ جسم میں ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ جسم ہمیشہ کے لیے ان لہروں سے ماورا ہوجاتا ہے۔ پھر اسے جلایا جاتا ہے۔

پر جب ہجوم اسے، اس کے کمرے سے گھسیٹ رہا تھا۔ تو ایک مشال ہی کیا۔ پر پورا کمرہ ہی ماتمی گیت بن گیا تھا۔ اور اس کمرے کے در وہ دیوار یہ التجا کر رہے تھے کہ

“اے شبِ ہجوم ان سے کہدو
جون! اس جہاں کا نہیں ہے!”

پر جون کی یہ صدا کون سنتا تھا۔ سب بھیرے ہوچکے تھے۔ وہ لوگ بھی جو مشال کو جانتے تھے۔ اور وہ لوگ بھی جو اس کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ بس آٹھ، دس افراد ہی کیا، اور ایک گولی ہے کیا۔ اسے تو سب نے مل کے قتل کیا ہے۔ یونیورسٹی کے استادوں نے! یونیورسٹی کے شاگردوں نے! یونیورسٹی کے ملازموں نے اور اس در و دیوار نے جس کو ولی خان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور کیا وہ ایک گولی سے قتل ہوا ہے؟!! کیا وہ تصاویر، وہ وائرل ہوتی وڈیوز، وہ ہجوم وہ بہت سے لوگ، وہ بہت سے تماشبین۔ وہ اُن کا شور۔ وہ اُن کا مشال کی طرف بڑھنا۔ وہ اسے گھسیٹنا اور پھر اسے جلا دینا کچھ نہ تھا؟

تو پھر وہ گولی سے کیسے قتل ہوا۔ وہ تو رویے سے قتل ہوا ہے۔ جو رویہ اس ہجوم۔ ان استادوں، ان ملازموں اور ان در و دیواروں نے اس کے ساتھ روا رکھا ہوا تھا۔ جس کے خلاف وہ بات کرتا تھا۔ لکھتا تھا۔ سوشل میڈیا سے لیکر روایتی میڈیا پر آتا تھا۔ اور وہ سب کچھ کہہ جاتا تھا۔ جو اس ہجوم کو گراں گزرتا تھا۔ اسے ایک گولی نے قتل نہیں کیا۔ اسے ان چند لوگوں نے قتل نہیں کیا۔ جن لوگوں کو کورٹ نے سزا سنائی جس میں سے ایک کو سزائے موت اور باقی کو عمر قید کی سزا آئی ہے۔

پر مشال پوچھتا ہے۔ اس ہجوم کا پتا۔ جو چند لوگوں پر مشتمل نہیں تھا۔ جو ایک دو لوگ نہیں تھے، وہ اتنے تھے کہ انہیں تو باآسانی گنا بھی نہیں جاسکتا۔ تو پھر کورٹ انہیں کیسے گن سکتی ہے؟ اور انہیں کیسے سزا دے سکتی ہے؟ یہی بات وہ اقبال پوچھتا ہے جو دل سے شاعر ہے اور ابھی تک مشال کا نوحہ لکھ رہا ہے۔ یہ بات پوچھتی ہے وہ ماں جسے مشال کے بعد قرار نہیں۔ یہی بات پوچھتیں ہیں وہ بہنیں جو اپنے گھر میں اس تصویر پر روز پھول چڑھاتی ہیں جس تصویر میں مسکراتا نظر آتا ہے مشال!

مشال کا بابا اقبال اس انصاف کو انصاف مانتا ہی نہیں جس کیس کی جنگ وہ اکیلے لڑا ہے۔ وہ اقبال جو اپنے وکلا اور ان ججوں کو کئی بار کہہ چکا ہے کہ

“قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ
میرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں!”

جس کیس کے لیے وہ بہت تکلیف میں رہا ہے۔ ابھی تو اس کیس کے کئی ملزم مفرور ہیں۔ ابھی تو اقبال اپنے بیٹے کے لیے روز نئے مرثیے اور نوحے لکھتا ہے۔ ابھی تو وہ اس بیٹے کے قبر کی مٹی خشک نہیں ہونے دے رہا۔ وہ روز جاتا ہے اس قبر میں موجود مشال کو سلام کرتا ہے۔ اس کے سرہانے بیٹھ کر روتا ہے او ر مشال سے معافی مانگتا ہے کہ “مجھے معاف کردینا تیرا بولنا ہی تیرا جرم ٹھیرا “

وہ اس قبر پر بہت روتا ہے جس سے وہ قبر خشک نہیں ہوتی۔ پر گیلی رہتی ہے۔ ابھی تو اس قبر پر سر شام پرندے چہچاتے آجاتے ہیں۔ مشال کی عجب زندگی کو اپنی بولی میں بیان کرتے ہیں اور اُڑجاتے ہیں۔ ابھی تو اس قبر پر لال پھول نہیں کھلے۔ ابھی تو روز وہ ماں آتی ہے اس قبر پر دیا جلاتی ہے۔ جس مشال کو وہ ہجوم ایک دیا سمجھ کر نہیں جلا رہے تھے۔ پر وہ ہجوم اس مشال کو ایک کچرے کا ڈھیر سمجھ کر جلا رہے تھے جس سے اس کا نازک جسم ایسے جلا جیسے کوئی روئی کا ڈھیر بھی نہیں جلاتا۔

یہ ان لوگوں کے خلاف عدالتی کاروائی کا آخری دن تو ہوسکتا ہے۔ پر اس کیس کا فیصلہ نہیں جس کیس کو دیوانوں کی طرح اکیلے لڑا ہے اقبال خان۔ اقبال خان ابھی لند میں موجود ہے۔ وہ وہاں پر کسی دعوت کے سلسلے میں گیا ہوا ہے۔ جب اس سے کسی نے پوچھا کہ کیا اب آپ خوش ہیں تو انہوں نے اس فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوا کہا کہ

“یہ انصاف کے ساتھ ایک ہجوم کا زنا ہے!”

اور نہیں معلوم گردیو ٹیگور کی دعا مشال کے حق میں کب منظور ہوگی جن دعاؤں کے طفیل گر دیو ٹیگور کو ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ پر ہو دعائیں ایک بے چین ماں کو صبر کیوں نہیں دے پا رہیں؟! وہ دعائیں جن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ

“آسماں تتلیوں سے،خشبوؤں سے بھر جائے۔زمیں پر پھول کھل آئیں اور مائیں قرار پائیں!”
پر وہ مائیں قرار کب پائیں گی؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں