اتہامی کارکن – برزکوہی

772

اتہامی کارکن

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست ہو یا ادب، مذہب، جنگ، تحریک یا کوئی بھی تنظیم، ہر اجتماع اور ہر اجتماعی حرکت میں تنقید و سوال کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور بحث و مباحثہ ہوتی رہتی ہے اور ہونا بھی چاہیئے وگرنہ جمود، حرکت پر غالب آکرخستہ حالی پیدا کرتی ہے۔

تنقید کے شعبے پر تاریخ میں ہمیشہ اشرافیہ کا ہی اجارہ رہا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ تنقید تقریباً اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکل کر عام لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ آج ہر کوئی ٹویٹر یا کسی اور سوشل میڈیا سائٹ پر سیکنڈوں میں حصہ لے سکتا ہے، اس وجہ سے آج تنقید سیاست میں مضبوط قدم جماچکی ہے۔ تنقید، خاص طور پر سیاست کے دائرے میں، مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے، جنہیں ایک دوسرے کے خلاف تولا جانا چاہیے۔ بڑے پیمانے پر تنقید بد گمانیوں اور جعلی خبروں کو پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے لیکن ہدف بنا کر، ماہرانہ تنقید طاقت کو کنٹرول میں رکھنے اور ہمارے معاشرے کو بہتر بنانے کا کام کرتی ہے، اس لیئے یہ کسی سیاسی عمل کا لازمی عنصر ہے۔ درحقیقت، جمہوریت یا سیاست کی طاقت کو جانچنے کی صلاحیت کی وجہ سے تنقید جمہوریت کی جڑ کہلائی جاسکتی ہے۔

سیاست اور تنقید کا ہمیشہ سے ہی باہمی انحصار رہا ہے، موثر سیاست اس کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ تاہم، وہی چیز جو ایک مضبوط سیاست کی بنیاد رکھتی ہے، اسے بھی خطرہ لاحق ہو سکتی ہیں- جسے سوشل میڈیا پر وسیع، بے بنیاد تنقید اور اتہام کے اثرات کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تنقید چاہے کسی بھی شعبے میں ہو اسے نقطے پر مرکوز اور بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ تعمیری، معلوماتی اور ادراک ہو۔

اس جدید دور میں تنقید کس قدر اہم ثابت ہوسکتی ہے، اسکی ایک اہم مثال واشنگٹن پوسٹ کی 2013 میں امریکی قومی سلامتی ایجنسی کی امریکی شہریوں پر وسیع پیمانے پر نگرانی پر تنقید ہے۔ اس امریکی پالیسی کے خلاف واشنگٹن پوسٹ نے باقاعدہ ایک تنقیدی مہم چلائی کہ شہریوں پر نگرانی انتہائی جارحانہ عمل اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس معاملے پر واشنگٹن پوسٹ کی تنقید نے زبردست تبدیلیاں لائیں اور حکومتی طاقت کو محدود کرکے امریکی جمہوریت کو مضبوط کرنے میں مدد کی۔

ادب کے میدان سے سر اٹھانے والی تنقید، ادب سے ہوتے ہوئے سیاست کے میدان میں رائج ہوا اور پھر سیاسی لوگوں نے اسے اپنایا، مگر نیم سیاسی لوگ یہ نہیں سمجھ سکے کہ تنقید خود ایک علم و فن، تحقیق اور تخلیق کے ساتھ ایک متبادل پروگرام، پالیسی اور حکمت عملی کا نام ہے یعنی تنقید برائے تعمیر ہر سطح پر اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔

تنقید و سوال کرنے اور نقطہ چینی، گلہ شکوہ و شکایت اور اتہام میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سوال کرنا اور سوال اٹھانا تخلیق و تحقیق اور سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن نقطہ چینی، گلہ، شکوہ و شکایت اور کھسرپسر ہمیشہ فساد، انتشار کی خاطر ہوتا ہے۔

ایک یونانی کہاوت ہے کہ “بغیر علم و دلیل کے تنقید کرنا اور اس سے اچھے نتیجے کی امید رکھنا ایسا ہی ہے کہ اپنے دوست کے ماتھے پر بیٹھے ہوئے مکھی کو اڑانے کیلئے، تلوار سے اسکا سر قلم کردینا۔”

آپ دنیا کے کسی بھی طویل تحریک کا گہرائی سے مطالعہ کریں، ایک امر آپکو واضح نظر آجائے گی کہ تنقید محض دانشور و سنجیدہ طبقے کی طرف سے ہی نہیں آتی، بلکہ تنقید کی اہمیت اور اظہار رائے کی آزادی کے دامن میں چھپ کر ایک طبقہ اسکا ناجائز فائدہ اٹھاتا بھی نظر آتا ہے۔ آسان الفاظ میں اس طبقے کو اتہامی کارکن یا شکایتی جہدکار کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ عمومی طور پر یہ سب سے زیادہ نالائق، سست، کاہل، غیرمستقل مزاج اور تھکاوٹ کے شکار لوگ ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے ان کے منہ سے اور کچھ نہیں نکلتا سوائے شکایت و نقطہ چینی کے، کیونکہ یہ انسانی فطرت کا ایک رویہ ہے کہ اپنی سستی، کمزوری، خامی، خوف، تھکاوٹ اور نالائقی کو چھپانے کی خاطر شکایتی رویہ بطور حربہ آزمایا جائے لیکن یہ ممکن نہیں۔

اگر نالائقی، بزدلی اور ناکامی شکایت و شکوہ اور نقطہ چینی سے کوئی چھپ پاتا، غائب ہوجاتا یا غلط صحیح ہوجاتا، تو آج دنیا میں اور تاریخ میں کوئی بھی نااہل و نالائق اور بزدل ثابت نہیں ہوپاتا۔

چار دن تک چار لوگ ایسے لوگوں کو سنتے ضرور ہیں اور مزہ بھی لیتے ہیں لیکن چار دن کے دھمال کے بعد یہ لوگ اس طرح بیٹھ کر خاک ہوجاتے ہیں جیسے ڈھول بجانے والے کے پیروں سے اٹھنے والی دھول، دھمال کے بعد بیٹھ جاتی ہے۔

اکثر لوگ ناکامی و زوال سے بچنے کےلیئے، لاشعوری طور پر بے خبری میں خود ہی ناکامی اور زوال والے ایسے رویئے اپناتے ہیں کہ خود ہی ناکامی اور زوال کی طرف محو سفر ہوجاتے ہیں۔ شکایتی جہدکار اپنا وقت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کےلیئے بھی وقت کا زیاں ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے جہدکار جدوجہد میں ہوتے ہوئے بھی جدوجہد میں نہیں ہوتے ہیں، یہ تحریکوں و تنظیموں میں ایک بہتریں کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے اوپر خود بوجھ بن کر تحریکوں و تنظیموں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔

جب انسان بے عمل بن جائے تو سب سے بڑا شکایت نامہ اسکے دامن پر ہی لکھا پائے گا۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ فکری طور پر پختہ جہدکار، بہادر ہوتے ہیں، بہادری محض توپ کے منہ میں خود کو ڈالنا نہیں ہوتا بلکہ اس لحاظ سے بھی بہادر ہوتے ہیں کہ انکی فکری پختگی انہیں اس قابل بناتی ہے کہ وہ بہادری کے ساتھ حالات کا درست ادراک رکھیں، درست تجزیہ کریں اور اس حقیقت کو نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ سمجھیں کہ زمینی حالات کیا ہیں، اور یہ حالات بطور جہدکار مجھ سے کس طرح کے جہد کا تقاضہ کررہے ہیں، اور بہادری و ایمانداری کے ساتھ اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ان تحریکی تقاضات پر کاربند ہوجائیں۔ خود کو حیلے بہانوں سے روکنا، درست تقاضوں کو سمجھ کر اپنی ذات کو ہر حال میں ان پر کاربند کرنا، بہادر جہدکاروں کا شیوہ ہے۔

جو عملی جہدکار ہوتے ہیں یا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ ہمیشہ شکوہ و شکایتی رویوں سے تنگ ہوتے ہیں اور جو بے عمل ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے، وہ ہاتھوں میں نقطہ چینی کا ڈھال اٹھائے، اسکے پیچھے اپنی بے عملی و بزدلی چھپاتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ہم سب جہدکار اسی ڈگر پر چل رہے تھے، اپنے زوال و زیاں کا سامان خود جمع کررہے تھے۔ لیکن آج اتنی طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بدولت سوچ و خیال بدل گئے، بہادری و قربانی کے پیمانے اور تعریف بدل گئی، ہمت و جرئت کے معنی بدل گئے، نقطہ نظر، زاویہ نظر اور رویئے بدل گئے، یہاں تک کہ جدوجہد میں ایک پوری نسل نے جنم لیکر، دوران جنگ پرورش پاکر، آج خود جنگ کا حصہ ہے یعنی دوران جدوجہد جہدکار ہی بدل گئے۔ اب اگر ابھی بھی کوئی ماضی پرست بن کر ماضی کے سوچ کو اٹھا کر چلنے کی کوشش کرے تو وہ چلے گا ضرور مگر گول دائرے میں آگے نہیں بڑھے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں