سُلگتا بلوچستان اور نوجوان – سعید احمد بلوچ

282

سُلگتا بلوچستان اور نوجوان

تحریر: سعید احمد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں کسی بھی قوم کی سرزمین، بقا اور اُس کی زبان کو خطره لاحق ہو تو اُس کی اُمیدیں اپنی نوجوانوں پر ہوتی ہے اور یہ اُس قوم کے نوجوانوں پر منحصر ہے کہ وه اپنے فرائض کس طرح سرانجام دیتے ہیں تاریخ کے سُنہرے پنوں میں اپنا نام درج کرواتے ہیں یا اپنے آنے والی نسلوں کی لعنتیں اپنے سر پہ اُٹھاتے ہیں؟

اسی طرح آج اگر ہم دیکھیں تو بلوچ سرزمین، زبان اور بلوچ قوم کو بھی خطره آخری حد تک لاحق ہے، ہم دیکھیں گوادر ڈسٹرکٹ کو الگ کرکے پھر لسبیلہ سے منسلک کیا گیا اور کل لسبیلہ کو بلوچستان سے الگ کیا جائے گا جیسا کہ پہلے لیاری اور ڈی جی خان تھے بلوچستان تو پہلے ہی ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے ایک طرف افغانستان اور دوسری طرف ایران۔

اگر زبان کی بات کی جائے تو بلوچستان کے بہت سے علاقے ہیں جہاں 50 فیصد بلوچستان کی جو زبانیں ہیں وه بولی جاتی ہیں اور ایسے علاقے بھی بہت ہیں جہاں اس سے بھی کم بولی جاتی ہیں اور آجکل چائنیز زبان کو بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں پڑهایا جانا اسکی واضح مثالیں ہیں کہ یہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے پر کاربند ہیں-

بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کو اس حد تک خطره لاحق ہے تو بلوچ قوم کے نوجوان کی سوچوں کو کس طرح کسی مخصوص چیزوں پر مرکوز کیا جارہا ہے بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں کو ایک منظم سازش کے تحت مصنوعی مسائل پر مرکوز کیا جارہا ہے اصل مسئلے پر دهیان دینے ہی نہیں دیا جارہا۔

آج ہم اگر دیکھیں تو ہم کو ایک چیز واضح نظر آتی ہے کہ بلوچ طلبا کو ایک سازش کے تحت ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلے کی طرف گھسیٹا جارہا ہے کبھی انٹری ٹیسٹ، کبھی بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل اور کبھی ہاسٹلوں کےمسائل۔ یہ سب نوجوانوں کے ذہنوں کو اصل مسائل پر نہ پڑنے دیا جانا تاکہ نوجوان ہر وقت اسی احتجاج اور ان مسائل سے آگے سوچے ہی نہیں۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو بلوچستان کو منشیات کا ایک گڑھ بنا دیا گیا ہے بلوچستان کے ایسے علاقے اس لعنت کے لپیٹ میں اسی طرح آچکے ہیں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کلانچ سے لیکر پسنی اور پسنی سے لیکر گوادر اسی طرح پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے منشیات کا اس طرح پھیلنا اسی تیزی سے نوجوانوں کا متاثر ہونا واضح ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت یہ سب ہورہا ہے۔

بلوچ نوجوانوں کو چاہیے کہ وه اپنے اصل مسئلے کو سمجھ لیں اور اپنی سوچیں اسی مسئلے پر مرکوز کریں تاکہ آنے والے نسلیں ان پر لعنت نہ بھیجیں اور بلوچ اسٹوڈنٹس تنظیموں کو چاہیے کہ وه اپنے ممبران کو اپنے اصل مسائل سے آگاه کریں اور اُنہیں سیاسی حوالے سے مضبوط کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں