امریکا نے بگرام ائیر بیس مکمل افغان حکام کے حوالے کردیا

247

امریکا نے 20 سال بعد بگرام ائیربیس افغان حکام کے حوالے کر دی ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا کے اعلیٰ حکام نے بگرام ائیربیس مکمل طور پر افغان نیشنل سکیورٹی ڈیفنس فورس کے حوالے کر دی ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق بگرام ائیر بیس سے فوجی انخلا واضح اشارہ ہے کہ افغانستان میں موجود 2500 سے 3000 امریکی فوجی افغانستان چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کے قریب ہیں۔

خیال رہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکا نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے بگرام ائیربیس کو اپنا مرکز بنایا تھا اور افغان جنگ کے عروج کے دور میں بگرام ائیر بیس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی فوجی تعینات تھے۔

امریکی صدر جو بائیڈن 11 ستمبر تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں جبکہ سابق افغان صدر حامد کرزئی امریکی فوج کے انخلا کو شکست قرار دے چکے ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی انخلاء کے ساتھ طالبان کی جانب سے پرتشدد واقعات میں کافی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جب طالبان میں کابل انتظامیہ زیر انتظام کئی ضلع بھی اپنے قبضے میں لے رکھا ہے

گزشتہ دنوں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ کئی صوبوں میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد یہ لڑائی ان کے الفاظ میں، کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا ہے کہ اب بھی کابل حکومت اور دوحہ میں موجود طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔

افغانستان میں گزشتہ 12 برسوں میں 38 ہزار عام شہری مارے گئے ہیں جب کہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

کابل میں امریکی سفارت خانے میں چارچ ڈی افئرز راس ولسن نے طالبان کی حالیہ فتوحات کے پس منظر میں کہا ہے کہ دنیا تسلط کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ جاری تشدد ختم کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئیں۔

اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا ”جیسا کہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 22 جون کو کہا تھا، دنیا افغانستان کے اندر کسی تسلط اور طاقت کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو قبول نہیں کرے گی“۔

راس ولسن نے مزید کہا کہ جیسا کہ ہمیں ذرائع ابلاغ اور شاہدین سے طالبان کے عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر حملوں کی خبریں مل رہی ہیں، ہم طالبان سے کہیں گے کہ وہ مذاکرات کی طرف واپس آئیں اور تشدد ترک کر دیں۔

امریکہ کے محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے بھی گزشتہ روز طالبان کو یاد دلایا تھا کہ افغانستان کے اندر تشدد میں تیزی آ رہی ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ قابل بھروسا انداز میں امن عمل کی جانب آئیں۔

سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان اور افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے پر عزم ہے جیسا کہ صدر بائیڈن نے 26 جون کو کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری ختم نہیں ہو رہی ہے۔

ادھر افغانستان میں مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے، وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق، قیادت کی سطح پر افغانستان کی صورت حال پر گفتگو میں کہا ہے کہ صوبوں میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد یہ جنگ دارالحکومت کابل کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی کے باوجود اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں رابطے موجود ہیں۔ لیکن ان کے بقول ان مذاکرات کے نتائج غیر واضح ہیں۔

صدر اشرف غنی کی نائب ترجمان فاطمہ مرسل نے بتایا ہے کہ صدر غنی ان حالات میں افغانستان کے تمام سیاست دانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ملک کے دفاع کے لیے متحد ہوں۔

اسی اثنا میں طالبان کے دوحہ میں ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے افغانستان کی حکومت کی مذاکراتی ٹیم پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہو رہی ہے۔

میڈیا کو جاری اپنے ویڈیو پیغام میں طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کابل مذاکراتی ٹیم کوامن بات چیت میں سنجیدگی سے شریک ہونا چاہیے