ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے کئے گئے – بی این ایم

227

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بی این ایم رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو بارہ سال مکمل ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف بی این ایم نے جرمنی، نیدرلینڈز، ساؤتھ کوریا، امریکہ، یونان اور برطانیہ میں احتجاجی مظاہرے کئے۔ مظاہروں میں بی این ایم کارکناں اور بلوچوں کے علاوہ مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرین نے بینزر اور پلے کارڈز اٹھائے جن پر جبری گمشدہ افراد کی تصاویر اور نعرے درج تھے۔ مظاہروں کے دوران مقررین نے اپنے خطاب میں پاکستانی ظلم و جبر کو مقامی لوگوں کے سامنے بیان کیا۔

نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈم میں بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ، بی این ایم نیدرلینڈز کے صدر کیّا بلوچ، ولید طاہر، منور بلوچ اور عمران حکیم نے خطاب کیا۔ حمل حیدر نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لحاظ سے پاکستان خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی آرمی اور خفیہ ادارے بلوچستان میں بلوچ سیاسی کارکنوں، لکھاریوں، ڈاکٹروں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغوا کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہیں جو بارہ سالوں سے لاپتہ ہیں۔ اسی طرح ذاکر مجید ایک اور مثال ہیں۔ ہزاروں بلوچ ڈاکٹرز، طالب علم، وکلا، اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے تشدد خانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے خاموش ہیں اور پاکستانی آرمی اور خفیہ ادارے اس استثنیٰ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر اس انسانی بحران کیلئے دباؤ ڈالیں۔ بلوچوں کے علاوہ دوسری قومیتیں پشتون اور سندھی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے بھی صحافی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

چھبیس جون، بروز ہفتہ، جرمنی کے شہر بلیفیلڈ میں ( انٹرنیشنل ڈے اِن سپورٹ فار ویکٹمس آف ٹارچر) اور ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی 12 سالہ طویل جبری گمشدگی کے حوالے سے ایک مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ 28 جون 2009 کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اورناچ خضدار سے دوران ڈیوٹی اغوا ہوئے۔ بارہ سال کا طویل عرصہ گُزرنے کے باوجود تاحال انکی کوئی خبر نہیں۔ ان کی بہ حفاظت بازیابی کے لیے بی این ایم کے احتجاجی مظاہروں کے علاوہ فیملی نے کئی مظاہرے کیے اور کوئٹہ سے اسلام آباد تاریخی پیدل لانگ مارچ کی اور پاکستانی سُپریم کورٹ تک رسائی کر کے پٹیشن دائر کی ہے مگر پاکستانی حکمران بدستور ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت ہزاروں بلوچوں کو اغوا کر کے لاپتہ رکھے ہوئے ہیں۔

جرمنی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے سینئر ممبر بدل بلوچ نے کہا آج ۲۶ جون ہے جو عالمی سطح پر ٹارچر کے خلاف بنایا جاتا ہے مگر بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پہ لوگوں کو پاکستانی فوج اور اُسکی ایجنسی سرِعام اغوا کرکے اپنے ٹارچر سیلوں میں بند کرکے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کی مسخ شدہ لاش پھینکی جارہی ہیں۔ آج سے کچھ دن پہلے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فوج نے آپریشن کرکے ایک درجن سے زیادہ بلوچ عورتوں کو ریپ کیا، مگر افسوس، ان مظالم کے خلاف دنیا خاموش ہے۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے ممبر سنگت شار حسن بلوچ نے کہا پاکستان ایک دہشتگرد ملک ہے۔ پاکستان کو انگریز نے اپنی ایک کالونی کے طور پر بنایا مگر آج پاکستان دہشتگردی کی علامت بن چکی ہے۔ آج نہ انڈیا پاکستانی دہشتگردی سے محفوظ ہے نہ کہ افغانستان۔ آج پاکستان پوری دنیا کے دہشتگردوں کو سپورٹ کرکے دنیا کی امن کو تباہ کر رہا ہے۔ پاکستان مذہبی دہشت گردوں کے ذریعے بلوچستان کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور افغانستان کو اپنی صوبہ بنانے کا خواب بھی انہی دہشت گردوں کے ذریعے پورا کرنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا آج اس دن کو ٹارچر کے خلاف بنا رہا ہے مگر پاکستان کے ہاتھوں بلوچستان میں کوئی محفوظ نہیں ہے، نہ عورتیں نہ بچے نہ جوان نہ بوڑھے۔ ہر کوئی پاکستان کی دہشت گردی کی چکی میں پس رہا ہے۔

مظاہرے سے بی این ایم کے ممبر امجد مراد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارا یہاں مظاہرہ کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ دنیا کی تاریخ کے سب سے ذیادہ مظالم آج ہم پر ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا رکن ملک پاکستان خود اقوام متحدہ کے قانون کو اپنے پاؤں تلے روند رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی مظالم کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قانون پاکستان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف خود اقوام متحدہ پاکستانی مظالم میں خاموش ہے۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے سینئر ممبر سنگت جبار بلوچ نے کہا کہ آج کے دن کو عالمی سطح پر ٹارچر کے خلاف بنایا جا رہا ہے مگر آج یہاں جتنے لوگ مظاہرے میں شریک ہیں، ہم سب پاکستانی ٹارچر کے وکٹمز ہیں۔ ہم دنیا کو بتانا چاہتے کہ بلوچستان ٹارچر کی سرزمین ہے۔ پاکستانی فوج مذہبی دہشتگرد اور ڈیتھ اسکواڈز سب ملکر بلوچستان میں مظالم کی انتہا کر رہے ہیں۔ آج ان کے ہاتھوں اسٹوڈٹٹس، عورتیں، بچے، بوڑھے اور ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکن لاپتہ ہو چکی ہیں۔ بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ آج ۱۲ سالوں سے پاکستانی آرمی کے ٹارچر سیلوں میں بند ہیں۔ یہ وہی فوج ہے جس نے بنگالیوں کا نسل کشی کیا۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی آر پی کے ممبر عبدالجلیل نے کہا بلوچستان ساحل و وسائل کے سرزمین ہے جسے پاکستان بے دردی سے لوٹ رہا ہے۔ بدلے میں پاکستان بلوچوں کو مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں دے رہا ہے۔ پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنی ڈیٹھ اسکواڈز تشکیل دے چکی ہے جو بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ اساتذہ کو بے دردی سے قتل اور عورتوں کو ریپ کر رہے ہیں۔

جرمنی میں مظاہرے سے خطاب میں سنگت فہیم بلوچ نے کہا کہ آج ہم یہاں پاکستانی مظالم کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے۔ آج ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو ۱۲ سال ہو رہا ہے کہ پاکستانی فوج کی ٹارچر سیل میں اذیت برداشت کر رہا ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں وہ کس حال میں جی رہا ہے۔

مظاہرے سے بانک ایمان علی بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اُس سرزمین سے آئے ہیں جہاں ماں، باپ، بھائی، بہن، سب کو قتل کیا جارہا ہے، عورتوں کو ریپ کیا جارہا ہے، اسٹوڈٹٹس کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے، وہاں کے بچے اپنی تعلیم چھوڑ کر اپنے باپ یا بھائی کی تلاش میں دربدر کے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جس سرزمین سے ہم آئے ہیں وہاں ہر کوئی ذہنی اور جسمانی ٹارچر سے گزر رہا ہے۔ ایک بیٹی جس کا نام مہلب دین ہے جو ۱۲ سالوں سے اپنی لاپتہ باپ کی بازیابی کیلئے دن رات جدو جہد کر رہی ہے۔ وہاں پر صرف ایک مہلب نہیں ہے، ہزاروں کی تعداد میں بیٹی اپنے باپ کے انتظار میں اذیت سے بھری زندگی جی رہے ہیں۔

مظاہرے سے بانک ساچان اور سنگت عبدالحمید نے بھی خطاب کیا۔

جنوبی کوریا کے شہر بوسان کے بف اسکوائر میں ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بارہ سالہ طویل جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ایک ریلی نکالی گئی۔ مقامی لوگوں کو پاکستانی جارحیت اور مظالم کے بارے میں آگاہی دی گئی۔ احتجاج کے آخر میں ایک ریلی نکالی گئی جو شہر کی مختلف گلیوں اور سڑکوں سے گزری۔ شرکاء نے نعرے لگائے اور پمفلٹ تقسیم کیں۔ شرکا سے خطاب میں سمیر نصیر بلوچ نے کہا کہ ہم ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بارہ سالہ جبری گمشدگی کے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں۔ انہیں اٹھائیس جون دو ہزار نو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے اغوا کیا۔ پاکستان کا بلوچوں کے ساتھ ایک جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس کوپاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا۔ اس دن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے مرد، خواتین اور بچوں کو بلا تفرق بلوچوں کا قتل کر رہے ہیں۔ پاکستان سول آبادیوں پر بمباری، ماورائے عدالت قتل جیسی سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ لاپتہ بلوچوں کو جعلی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے۔ اکثر بلوچ پروفیشنلز اور دانشوروں، ٹیچرز، ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ فوجی بربریت میں پنجگور کے علاقے کیلکور میں پاکستانی فوج نے ایک درجن سے زائد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اسی طرح امیر مراد گیارہ سالہ بچہ کے ساتھ ہوشاپ میں ریپ کیا گیا۔ آواران میں نورجان بلوچ نے اس لئے خود کشی کی کہ اسے مجبور کیا جا رہا تھا کہ اپنی بیٹی کو فوجی کیمپ میں پیش کرے۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ عالمی میڈیا اور انسان حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ ہم اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور دوسرے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ بلوچستان میں اپنی ظلم و بربریت بند کرے۔ ہم ان سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجیں۔

اسی حوالے سے امریکہ میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ 26 جون کو، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بارہ سالہ جبری گمشدگی کے خلاف وائٹ ہاؤس کے باہر ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے، جن پر پاکستانی مظالم کے خلاف نعرے اور جبری لاپتہ افراد کی تصاویر آویزان تھیں۔

مظاہرے سے بی این ایم امریکہ کے آرگنائزر نبی بخش بلوچ، ممتاز بلوچ دانشور ڈاکٹر حسین بُر، سمیع بلوچ، امداد بلوچ، پشتون تحفظ موومنٹ کے پیر زبیر شاہ، اور سندھی قوم پرست ظفر ساہیتو نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان تاریخ کے بدترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت چالیس ہزار سے زائد بلوچ جبری لاپتہ ہیں۔ بلوچستان کو ایک جدید دور کی نسل کشی کا سامنا ہے جو خطے میں اقتصادی اور فوجی فوائد کے لئے پاکستان اور چین شراکت داری کے ذریعہ انجام پا رہا ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما دین محمد بلوچ کو 28 جون ، 2009 کو پاکستانی ملٹری انٹلیجنس نے اغوا کیا تھا۔ وہ پچھلے 12 سال سے لاپتہ ہے – ان کی بچیاں سمّی بلوچ اور مہلب بلوچ احتجاجی کیمپوں میں زندگی گزار کر بڑی ہوگئی ہیں۔

بی این ایم کارکنوں نے وائٹ ہاؤس کے سامنے راہ گیروں کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے پمفلٹ تقسیم کئے۔

یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں سنتگما اسکوائر پر یونانی پارلیمنٹ کے سامنے ستائیس جون کو ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بارہ سالہ جبری گمشدگی اور دوسرے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس بارے میں مظاہرین نے پمفلٹ بھی تقسیم کئے۔ بی این ایم کارکناں کے علاوہ احتجاج میں بی ایچ آر سی کے ذاکر بلوچ، اور بلوچ پیپلز کانگریس کے مراد بلوچ نے بھی شرکت کی۔ بی این ایم یونان کے زونل آرگنائزر قدیر ساگر بلوچ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی بلوچ جو اپنے حق اور آزادی کیلئے جدوجہد کرے، پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اسے اغوا کرکے کئی سالوں تک ٹارچر سیلوں میں رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا جاتا ہے، اسے اپنی دفاع کیلئے نہ وکیل کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی اس کے خاندان کو خبر ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ پاکستان کی ظلم و جبر کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں اور چین کے خطرناک عزائم کو روکنے کیلئے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت اور مدد کریں ۔