جام کمال بلوچ دھرتی کے بیٹے بنو – محمد خان داؤد

167

جام کمال بلوچ دھرتی کے بیٹے بنو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب تم دیس کی محبت کو سمجھ جاؤ گے تو تم پر جوتوں کی برسات نہ ہوگی،جب تم پر وہ ہاتھ پھول برسائیں گے جو ہاتھ اس وقت تم پر جوتوں کی برسات کرنا چاہتے ہیں۔کیونکہ تم دیس کی محبت کو نہ تو جان پائے ہو اور نہ سمجھ پائے ہو۔دیس کی محبت کوئی پروٹوکول نہیں دیس کی محبت تو وہ ماں کی جھپی ہے جو انسان کو اپنی بانہوں میں گھیر لیتی ہے، پھر اسے وہی احساس ہوتا ہے جواک بچے کورحم میں ہوتا ہے
یہ پورا دیس ماں کا رحم ہے،پر تم بھی تو جانوکہ یہ دیس عوام نہیں،ماں ہے جوتمہیں اپنی گود میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔پر تم اس دیس ماں کی محبت کو جان ہی نہیں پاتے تم بس سمجھ رہے ہو کہ یہ شاہی پروٹوکول ہی تمہیں عزت سے نوازے گا۔تمہارے سر پر عزت کا تاج رکھے گا اور اپنی آنکھیں واہ کیے رہے گا جن آنکھوں میں تم جا کہ سما جاؤ گے۔پر ایسا کچھ نہیں جو تم تک پہنچ پاتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ تمہارا سواگت جوتوں سے کریں اور جو تم تک نہیں پہنچ پاتے وہ اس خبر سے نہال ہو تے ہیں کہ تم پر جو تے برسے۔

نہیں معلوم تم دیس کی محبت کو کب سمجھ پاؤ گے۔ان پہاڑوں کا دکھ کب جان پاؤ گے۔
مٹی کی محبت سے کب آشنا ہو پاؤ گے
ان پتھروں کا دکھ کب سمجھ پاؤ گے
جن پتھروں پر پہلا پیر سسئی کا پڑا
اب تو ہر درد کا دوسرا پیر ان ہی پتھروں کے ماتھے پر پڑتا ہے
ان اداس راستوں سے اُڑتی دھول کے درد کو کب جان پاؤ گے
کب جان پاؤ گے جب کسی ماں کا بیمار بچہ بیماری میں تڑپتا ہے
تو ماں اپنے دامن کو پھیلا کر یہ دعا کرتی ہے کہ
”کراچی کا فاصلہ جلد سے جلد کم ہو جائے!“
کاش تم ان آنسوؤں کے درد کو جان پاؤ
جو کسی کی یاد میں نکلتے ہیں اور بس نکلتے ہی رہتے ہیں
کاش تم مسافر ماؤں سے واقف ہو جاؤ
کا ش تم اس سفر کی رو داد کسی سے جان پاؤ جس سفر میں سفر تو جا ری رہتا ہے
پر منزل نہیں آتی
کاش تم ان بیٹیوں کے دردوں کو جان پاؤ جو نہیں معلوم کس جرم کی سزا میں جی رہی ہیں
کاش تم ان آہوں کو سمجھ پاؤ جو ان ماؤں کے حلق سے نکلتی ہیں جن ماؤں کو سرکار نے سوائے درد کے کچھ نہیں دیا
کاش تم واٹس اپ کے گروپوں سے باہر نکلو
اور جان پاؤ کہ بلوچ دھرتی پر کیا کچھ بیت رہی ہے؟
کاش تم ان پٹھے پرانے کپڑوں کا درد جان پاؤ جو ان جسموں پر ہو تے ہیں جو جسم
دیس سے محبت اور پیسے کی چمک سے بہت دور ہیں
کاش تم ان پیروں کو جان پاؤ جو صحرہ کی گرمی میں اپنے پیروں پر پلاسٹک کی تھیلیاں باندھے چلتے ہیں اور اپنے ہی درد میں جلتے ہیں پر دیس سے کوئی شکایت نہیں کرتے
کاش تم بارشوں میں برستے گھروں کو دیکھتے
کاش تم ندی نالوں کی گوش گزاریاں سن پا تے
کاش تم ان پیروں کو اپنی آنکھوں پہ لگاتے جو پیر اپنوں کی تلاش میں نکلے
اور اپنے ہی وجود سے گم ہو گئے
کاش تم ان جوتیوں کا بار محسوس کر پاتے جو مسافر پیروں کی زینت بنتی ہیں
اور سفر کے درد سے کٹ جا تی ہیں
کاش تم منتظر مائیں دیکھ پا تے جن کی آنکھوں میں اب سوائے انتظار کے کچھ بھی نہیں
نہ نور کے اور نہ آنسوؤں کے
تم پہاڑوں کے دیس کے باسی ہو
پر تم پہاڑوں کے درد سے واقف نہیں
تم نہیں جان پاؤ گے کہ پہاڑ بھی ہوش گنواں بیٹھتے ہیں
پہاڑ بھی پاگل ہو جاتے ہیں
اور پہاڑ بھی رو تے ہیں
پر کب؟
جب دیس کی ماں بس اس لیے بے بس ہو جائے کہ اس کا بچہ بیمار ہے
اور بلوچستان میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں اس کا بچہ ٹھیک ہو جائے
بلوچستان کے پہاڑوں کی مائیں اور سندھ کے تھر کے صحرہ کی مائیں
ایک جیسی
ان کا درد ایک جیسا
ان کے آنسو ایک جیسے
اور مر جانے والے بچے ایک جیسے
معصوم قبریں ایک جیسی
کاش تم جان پا تے کہ بس تمہا رے ہی بچے نہیں جو شاہی پروٹوکول کے ہزاروں قافلے کی گاڑیوں میں گھومتے پھریں
پر کاش تم ان بچوں کو جان پاتے جو سخت سردی میں ننگے پیر اپنے ہاتھوں میں ادھ بھری پانی کی بوتل لیے اپنی بکریوں کے ساتھ پہاڑوں کے دامنوں میں اتر جا تے ہیں
پھر وہ کیا
اور ان کے درد کیا
کاش تم جان پاتے کہ ان ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر ہاتھ کیسے رکھا جاتا ہے
بلوچ دھرتی سے تم کوئی حساب نہیں مانگ رہی
بس یہ سوال کر رہی ہے کہ
”کیا تم ایسی دیس کے باسی ہو؟!“
اگر ہاں
تو دیس کے درد کو کب جانو گے؟
دیس کی آنکھوں سے برستے آنسو کب دیکھو گے؟
کب مٹاؤ گے درد
دردوں میں مرہم کب بھرو گے؟
کب ماؤں کی آنکھوں سے آنسو پونچھو گے؟
کب ان سے یہ کہوگے”میں تمہارا بیٹا ہوں تمہا رے ساتھ ہوں“
کب مسافر بیٹیوں کو دیکھو گے
کب ان کے ساتھ سفر کرو گے
کب ان سے یہ کہو گے
”بس اب سفر تمام ہوا اب تمہیں کوئی سفر کرنا نہیں پڑے گا!“
جب تک تم پروٹوکول سے جڑے رہو گے،تمہارا سواگت ان ہی پٹھے پرانے جوتوں سے ہوتا رہے گا
دھرتی سے جڑو گے دھرتی ماں ہے اور ممتا بن جائیگی
تمہیں اپنی بہانوں میں لے گی
اور تمہیں ایسا بوسہ دیگی
جیسابوسہ چاند ان قبروں کو دیتا ہے جن قبروں میں دیس کے بیٹے سو رہے ہیں
صبح ہونے تک
دھرتی کو ماں بن جانے
اورماں کو دھرتی بن جانے تک


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں