ہاتھوں سے گری ہوئی دعا – محمد خان داؤد

160

ہاتھوں سے گری ہوئی دعا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اسے یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مشاعروں میں ”سنا“کم اور”دیکھا“زیا دہ جاتا ہے۔ نقاد اس کی شاعری پر ٹیکا ٹپنی(دل جوئی)اتنی نہیں کیا کرتے۔جتنا بحث اس کی ذات پر کیا جاتا ہے۔ایسے رویے اس کی روح پر کانٹے بن کر گر جاتے تھے۔ ذاتی زندگی ہو یا ادبی زندگی کا حصہ سارا شگفتہ کی حیاتی میں اس کا وجود طنز،ہنسی،مخالفت اور پابندیوں میں جلتا رہا،گوشت نوچنے کی تاڑ میں بیٹھے مروں پر سارا نے کتنی ہی نظمیں لکھیں۔
وہ در اصل شاعری کی دنیا کی منٹو تھی
سارا کی شاعری کا بہت سا حصہ گدھ نماں انسانوں پر لکھا ہوا ہے۔جن کی محدود سوچ کا سفر جسم سے شروع ہوکر جسم پر ختم ہوتا ہے۔سارا نے لکھا تھا کہ
”یہاں تو قید کی کھڑکیاں کھولتے کھولتے
میرا بند اٹکنے لگا ہے
ہر نقاد،غیر نقاد
میرے بدن میں بھونکنا چاہتا ہے
پھر اپنی سانس جتنا کفن
میرے لئے الاپتا ہے
میرا سب سے بڑا گناہ یہ ہے
کہ میں عورت ہوں“
کسی نے بہت خوبصورت بات کہی ہے کہ
”شاعری کیفیت میں رہنے کا نام ہے!“
بس واقعات کو بیان کرنا داستان گوئی ہو تی ہے،
سارا داستان گو نہیں پر وہ شاعرہ تھی
جسم سے شاعرہ
دل سے شاعرہ
اور روح سے شاعرہ
وہ جس کیفیت سے گزرتی تھی اس کو کاغذوں پر منتقل کر دیتی تھی۔جو شاعری بن جا تی تھی۔
”میرا لباس،میرے دُکھ ہیں
میں آگ کا لباس پہنے والی
اپنی چھاؤں کا نام بتاؤں؟
میں تمام راتوں کے چاند تمہیں دیتی ہوں!
تم بھی تو بتاؤ کہ دکھ کیا ہو تے ہیں؟“
شاعری جو گونگے جذبوں کو زبان عطا کرنے کا نام ہے۔سارا نے اپنے کسی بھی جذبے کو بے زبان رہنے نہ دیا۔سارا نے اظہار کیا،کھل کر اظہار کیا۔برملا اظہار کیا۔کسی بھی سماجی،قانونی رواجی،تہذبی اور مذہبی پابندی کی کوئی پرواہ نہ کی۔
”عزت کے کتنے ہی قسم ہیں
گھونگھٹ،تھپڑ،گندم
عزت کا سب سے بڑا حوالہ عورت ہے
گھر سے لیکر فٹ پاتھ تک
کچھ بھی ہمارا نہیں
کیوں کہ ہم عورت ہیں!“
سماج کی سوچ پر،رواجوں اور ریوں پر ایسا طنز پر سارا ہی کر سکتی تھی سو اس نے کیا۔سارا کے لفظ نشتر تھے۔کیوں کہ اپنی مختصر سی زندگی میں سارا نے دردوں اور دکھوں کو سبھی حالتوں میں دیکھا وہ خود ایک شاعرہ تھی پر اس کی زباں پر ہمیشہ معلوم نہیں کیوں فرید کے یہ بول رہتے تھے کہ
”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“
سارا دردوں کے مارے دل کو لیے جیتی رہی،
دکھ،چاہے درد، چاہیے تکلیفیں سارا کے دل میں ایسے بھکرے رہے جیسے بچوں کے سامنے کھلونے
”انسانوں کے دماغ دھوتے دھوتے
میرے ہاتھ ہی سیاہ ہو گئے ہیں
میں ضمیر سے زیادہ جاگ گئی ہوں
میرا دل خاموش ہے
پر میں سمندروں کے جیسے شور کرنا چاہتی ہوں
چیخنا چاہتی ہوں
میں ننگے سورج سے زیا دہ حسین ہوں
پر ہائے سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی ہوں!“
سارا شگفتہ نے امرتا پرتیم کو ایک خط میں لکھا تھا کہ
”پرندوں کی بولیاں ہی میرا جنم دن ہے!“
سچ تو یہ ہے کہ سارا کی روح سر مست تھی۔اس کے سینے میں جیسا کہ پرندوں کا دل تھا۔جن پرندوں کو بھلے سونے پنجروں میں بند کیا جائے،اچھی خوراک دی جائے۔ان کے سامنے کتنی ہی میٹھی بولیاں کیوں نہ بولی جائیں۔لیکن پھر بھی وہ قید میں خوش نہیں ہوتے۔جیسا کہ وہ آکاش کا کوئی ٹوٹا تارہ تھی
سارا آکاش کا ٹوٹا تارہ!
جو دھرتی پر کہیں پر بھی فٹ نہیں آ رہی تھی۔زندگی کے سفر میں سارا نے زندگی کا اور عورت کا ہر روپ دیکھا تھا۔پر ہر روپ میں وہ زندگی اور عورت پامال ہو تی رہی۔کسی بھی روپ میں سارا کو مان سمان نہیں ملا۔روپ نے اس کی روح کو کچل کر رکھ دیا۔
وہ بیٹی رہی پر ایک باپ کی موجودگی میں بھی وہ یتیم رہی
سارا کو پیٹ کا جہنم بھرنے کے واسطے لقمے بھی گن کر ملتے۔جیسے کہ اسے کھانا نہیں خیرات مل رہی ہو۔
جس گھر میں سارا رہتی تھی،اس گھر کی چھت تو بارش کے ایک قطرے کا بھی بار برداشت نہیں کر سکتی تھی۔بارش اور سارا ساتھ ساتھ روتے تھے
آنسوؤں کی طرح
بارشوں کے قطروں کی طرح
اور پھر سارا کے تمام آنسو اور بارش کے تمام قطرے پانی پانی ہو جا تے تھے
بھوک اور دکھ سارا کی سہلیاں تھیں
وہ بہن بھی تھی،پر بھائیوں نے ہمیشہ اسے کاری سمجھا
وہ محبوبہ بھی رہی ایک دو نہیں پر کئی عاشقوں نے اس سے عشق کا اظہار بھی کیا۔ان میں سے ایک دو نے آسماں سے تارے لانے کے دعوے بھی کیے۔پر جب بھی محبت حقیقت کا روپ دھار کر اس کے سامنے آتی رہی تو اس کا محبت سے ایمان اٹھتا گیا۔وہ زوجہ بھی رہی۔ایک دفعہ نہیں پر چار بار،سارا مختلف مردوں سے چار بار نکاح کے بار تلے بندھی رہی۔مختلف وقتوں میں اس کے چار مجازی خدا بھی رہے۔پر ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کی سارا مجازی خدا کی طرح تعظیم کرتی،
سب مرد تھے
سب حرامی تھے
”محبوب“شوہر بنتے ہیں وحشی روپ میں سامنے آتے رہے۔سارا ماں بھی رہی ان تین بچوں کی جو اس کی کوکھ سے مختلف مردوں سے آئے۔وہ بچے بھی سارا سے الگ کیے گئے۔سارا ایک ماں کے روپ میں چیختی رہی،چلاتی رہی،روتی رہی۔بچے چھن جانے کی رودداد سارا نے ایک خط میں امرتا پرتیم کو لکھی تھی جس میں سارا نے لکھا تھا کہ
”کیا میرے بچوں کو مرد یہ سمجھانے اور جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں بازاری عورت ہوں؟!“
جب اپنے بچے پہلے والے شوہر سے لینے کے لیے عدالت میں سارا نے بیان دیا تھا کہ
”جج صاحب!
یہ شخص بلکل صحیح کہہ رہا ہے۔میں آوارہ بھی ہوں،بدکردار بھی ہوں۔میں قبول کرتی ہوں کہ یہ بچے مجھے اس شخص سے نہیں ان بچوں کا باپ کوئی اور ہے۔اس لیے عدالت مجھے اجازت دے کہ میں یہ بچے ان صاحب سے لیکر ان صاحب کو دے دوں جس کے یہ ہیں۔“
عدالت میں جو بھی الزام سارا پر لگے وہ سارے الزام سارا نے فراخدلی سے اپنے جسم پر ایسے قبول کیے جیسے کوئی کپڑے پہنتا ہے۔
سارا پر بہت کچھ لکھا گیا ہے پر جیسا امرتا پرتیم نے لکھا ویسا کسی نے نہیں لکھا
امرتا پرتیم نے لکھا تھا کہ
”سارا آکاش کا تارہ تھی،وہ زمیں پر گر کر ٹوٹ گئی پاش پاش ہو گئی!“
سارا شگفتہ کا قاتل کوئی ایک دو مرد نہیں
پر یہ معاشرہ ہے جو معاشرہ نہ تو سارہ شگفتہ کو جینے دیتا ہے اور نہ ہی قندیل بلوچ کو
سارا نے اپنے جنم دن کو ایسی تلخی سے بیان کیا تھا کہ
”میں ہاتھوں سے گری ہوئی دعا ہوں!“
وہ دعا جو نہ تو مقبول ہوئی
اور نہ منظور ہوئی
پر ڈرگ روڈ پر آہنی ریل کے پیوں کے نیچے آکے کچلی گئی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں