کوئی جائے ریاست مدینہ کو خبر کر دے – محمد خان داؤد

223

کوئی جائے ریاست مدینہ کو خبر کر دے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وزیر اعظم کے بیٹے نے تاریخ اسلام میں گریجیوٹ کر لیا ہے
اور بہاول پور کے قرض دار کے بیٹے کو آدھی روٹی بھی میسر نہیں
وزیر اعظم کو سب مبارک باد دے رہے ہیں
پر اس غریب بچے کے مرنے پر اب کوئی رونے والا بھی نہیں
وزیر اعظم کے بیٹے عیش سے زندگی بسر کر رہے ہیں
اور غریب کے بچے فاقے سے مر گئے
وہ کوئی ایک دو لاشیں نہیں،وہ چار لاشیں ہیں ایک ماں کی،ایک باپ کی اور دو کم سن بچوں کی۔

جب اس غریب باپ نے اپنے معصوم بچوں کو زہر دے کر پھر اپنی اور اپنی بیوی کی بھی جان لی ہے تب سے ہم جیسے پیٹ بھرے سوشل میڈیائی دانشور عجیب وہ غریب کمنٹس کر رہے ہیں،کیوں کہ ہمارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں،اور ہمارے ہاتھوں میں جدید موبائل یا کی بورڈ ہے اور جو چاہیں غریب کی موت پر کمنٹس کریں پر ہمارا پالا اس بھوک سے نہیں پڑا جس بھوک کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”خدا،خدا ہے
پر پیٹ بھی ڈیڈھ خدا ہے“
اور لکھا تھا کہ
”ماں اپنے بھوکے بچے کو بھلا رہی تھی، پر بچہ بھوک سے بلبلا رہا تھا ماں بچے کو بھلا بھلا کر کچے گھر سے باہر لے آئی اور اوپر آسماں پر چاند چمک رہا تھا ماں نے بھوکے بچے کو بلا کر کہا
دیکھو اوپر چاند کتنا حسین ہے بلکل میرے بیٹے کی طرح
چاند گول تھا
پوری چودہویں کی رات کا
بچہ کافی دیر چاند کو تکتا رہا کیونکہ چاند پورا تھا اور گول تھا بچہ بھی چاند کو تکتا رہا تکتا رہا اور ماں کو کہنے لگا
اماں چاند ہو بہ ہو روٹی جیسا ہے!
ہاں ہمارا پالا بھوک سے نہیں پڑا تو ہم جان بھی نہیں سکتے کہ بھوک کیسے دانا کو دیوانہ کرتی ہے؟

ہمارے پیٹ بھرے ہوئے ہیں،ہمیں بھوک چھو کر بھی نہیں گزری ہمیں کیا احساس کی بھوک کیا ہے؟اور ہمیں تو یہ بھی احساس نہیں کہ جب کچے گھروں میں بھوکی ماں کے بچے بھوک سے بل بلاتے ہیں تو ماں پر کیا گزرتی ہے؟ہمیں کیا معلوم کہ جب بھوکا،بے روزگار مزدور باپ گھر میں داخل ہوتا ہے اور معصوم بھوکے بچوں کی اداس آنکھوں میں بہت سے سوال ہو تے ہیں جن میں سب سے پہلا اور تکلیف دینے والا یہ سوال ہوتا ہے کہ
”ابا کیا آج روٹی ملی گی؟!“
یہ سوا ل ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں پر یہ سوال خود ہی ان اداس آنکھوں میں داخل ہوکر اس دل تک پہنچ جاتا ہے جو دل اک مجبور،لاچار،بے روزگار باپ کا ہوتا ہے جو بہت کچھ چاہتا ہے پر کچھ نہیں کر پاتا جو چاہتا ہے کہ اس کے بچوں کو دودھ ملے،دوا ملے،کپڑے ملیں،گھر ملے کچا ہی صحیح،اگر کچھ نہیں ملتا تو وہ روٹی ضرور ملے جس کا سوال یہ بچے اپنی زباں سے تو نہیں کرتے پر یہ سوال ان کی اداس معصوم آنکھوں میں ہوتا ہے اور جیسے ہی وہ باپ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو یہ سوا ل اس کا پیچھا کرتا اس تک پہنچ جاتا ہے
اور اس کے پاس اس سوال کو کوئی جواب نہیں ہوتا
تو ایسے میں ایک باپ کیا کرے؟
ایسے سوالات کے جوابات نہ ہونے پر اک باپ جان سے چلا جاتا ہے
اور ہم ہیں کہ موبائل فون اور کی بورڈ کے پیچھے چھپ کر ان کی اداس لاشوں پر ایسے ایسے کمنٹس کرتے ہیں کہ انسانیت ہی شرما جائے
کیا مرجانا اتنا آسان ہے؟اگر آسان ہے تو ہم کیوں مر نہیں جاتے؟
پر اس کے لیے تو جینا مشکل ہوگیا تھا ہم تو مزے سے جی رہے ہیں پر اس کے جینے میں اتنی ہی تکلیف تھی جتنی تکلیف ہمارے مرنے میں ہے
”ہے محبت حیات کی لذت
ورنہ کچھ لذت حیات نہیں
کیا اجازت ہو اک بات کہوں؟
وہ مگر،خیر کوئی بات نہیں“
ہم تو کچھ نہیں جانتے،ہمیں تو کچھ خبر نہیں،کیا غریبوں کی بھوک ان لنگر خانوں سے مٹ سکتی ہے جس لنگر خانوں میں ملک کا وزیر اعظم آتا ہے لنگر خانوں میں پکے کھانے سے نوالہ لیتا ہے فوٹو گرافروں کی ٹیم ساتھ ہو تی ہے اور موصوف بیان کرتے ہیں کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا؟
ہاں اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا پر کیا اب کوئی بھوکا مرے گا بھی نہیں؟
کیا کوئی عزت دار فرد اپنی بیوی بچوں کا ٹولا لیے ان لنگر خانوں کے ارد گرد ڈیرہ لگائے اور اس انتظار میں بیٹھا رہے کہ کب لنگر کھلتا ہے اور وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھرا کر واپسی کی راہ لے
کوئی جائے اور جا کہ ریاست مدینہ کے والی کو بتا دے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سو رہا پر اب لوگ اپنے بچوں سمیت اجتماعی خود کشیاں کر رہے ہیں۔

کوئی جا ئے اور جا کہ ریاست مدینہ کے والی کو بتائے کہ مائیں ان بچوں کو زہر دے رہے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کا قصور کیا ہے؟
کوئی جائے اور جا کہ ملک کے وزیر اعظم کو بتا دے کہ اس ملک میں مائیں بننا کتنی بڑی اذیت ہے
کوئی جائے اور جا کہ ریاست مدینہ کے والی کو بتا دے کہ جب چھوٹے بچے زہر سے مرتے ہیں تو مائیں بھی مر جا تی ہیں
کوئی جائے اور جا کہ وزیر اعظم کو بتائے کہ جب معصوم چھوٹے بچے مرتے ہیں تو ان کی لاشوں پر کوئی رونے والا بھی نہیں ہوتا
کوئی جائے اور جا کہ ریاست مدینہ کے والی کو خبر کر دے کہ جب معصوم بچے بھوک سے مرتے ہیں تو آسماں روتا ہے
کوئی جا ئے اور جا کہ ریاست مدینہ کو خبر کر دے کہ جب معصوم بچے مرتے ہیں تو باپ انہیں کاندھوں پر لیے قبرستان نہیں جاتے پر اپنی باہنوں اور جھولیوں میں لیے لیے پھرتے ہیں
پر ان معصوم بچوں کو تو باپ کی جھولی بھی نصیب نہیں ہوئی
کوئی جا ئے اور جا کہ ریاست مدینہ کے والی کو خبر کر دے کہ سب اچھا نہیں ہے اور شیخ رشید جیسے پٹواریوں کی ان خبروں پر کان مت دھرے جس میں یہ جھوٹی سچی خبروں کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ والی ریاست کے کان خوش ہو جا تے ہیں پر والی ریاست مدینہ جاؤ ان ماؤں کے پاس جن کے معصوم بچے بھوک کی وجہ سے زہر کھلا کھلا کر ہلاک ہو رہے ہیں
اے رہاست مدینہ کے والی!
وہ بچے ہیں
معصوم ماؤں کے معصوم بچے
وہ آوارہ کتے نہیں کہ انہیں زہر سے ہلاک کیا جائے!
اے ریاست مدینہ کے والی تمہیں مبارک کہ تمہا رے بچے نے تاریخ اسلام میں گریجیوٹ کیا
پر بہال پور کی ماں کے بچے نے تو اسکول کا در ہی نہیں دیکھا
وہ چاند جیسا بچہ
قبر بن گیا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔