چین ایران معاہدہ۔ ایک نئے مناقشے کا آغاز – انورساجدی

480

چین ایران معاہدہ۔ ایک نئے مناقشے کا آغاز

تحریر: انورساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

چین کا ایران سے 25سالہ معاہدہ وہ بھی 400ارب ڈالر کا ساتھ میں چین کا یہ کہنا کہ ایران ان ممالک میں شامل نہیں جو ایک ٹیلی فون کال پر اپنی پالیسی بدل دے اس بیان کے پانچ روز بعد سعودی ولی عہد ایم بی ایس کی اچانک پاکستانی وزیراعظم کو ٹیلی فون کال آئی حال احوال کے بعد ولی عہد نے انہیں ریاض آنے کی دعوت دی تو کسی تامل کے بغیر قبول کر لی گئی۔

سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات اقوام متحدہ میں عمران خان کے خطاب اور ملائیشیاء سمٹ میں شرکت کے اعلان کے بعد خراب تھے، دیا گیا قرضہ اور ادھار پر تیل کی سہولت بھی واپس لے لی گئی تھی لیکن جونہی چین اور ایران کے درمیان تاریخ کے ایک بڑے پیکیج کا معاہدہ ہوا تو سعودی عرب کو اچانک پاکستان کی یاد آئی کیونکہ پاکستان ایران کا قریبی پڑوسی ہے دونوں ممالک کے تعلقات سعودی عرب کی وجہ سے سرد مہری کا شکار تھے لیکن سعودی ولی عہد نے کئی وجوہات پر پاکستانی حکومت کا ہاتھ جھٹک دیا تو اس نے ایران سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی چونکہ سعودی عرب ایران کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتا لہذا چین کا معاہدہ ایک طرح سے بجلی بن کر اس پر گر گئی وہ جانتا تھا کہ ایک ٹیلی فون پر کونسا ملک تمام گلے شکوے بھلا کر تعلقات بحال کرتا ہے اس لئے اچانک کال آئی اور اس کے نتیجے میں کشیدہ تعلقات بحال ہو گئے۔

ایک اور پیش رفت حالیہ دنوں میں پاک بھارت تناؤ میں کمی اور روابط بحال کرنے کی بھی ہے بظاہر اس میں مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے چھوٹے ”داروغہ“ یو اے ای نے کردار ادا کیا لیکن دراصل یہ ذمہ داری اسے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے سونپی تھی تاکہ جنوبی ایشیاء کے دو حریفوں کو جنگ و جدل سے نکال کر یکسوئی کے ساتھ چین کے خلاف از سر نو صف بندی کی جائے ساری دنیا کو پتہ ہے کہ چین کے مقابلہ کیلئے امریکہ کی نظر بھارت پر ہے دونوں ممالک کے درمیان ایک تذویراتی معاہدہ بھی ہے یہ معاہدہ اگرچہ صدر اوبامہ نے کیا تھا لیکن ٹرمپ جیسے نیم پاگل نے بھی اسے برقرار رکھا تھا جبکہ بائیڈن اس پارٹنر شپ کو مزید بڑھاوا دینا چاہتا ہے اب جبکہ مودی کشمیر کو مستقل طور پر بھارت میں ضم کر چکے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان پاک بھارت تعلقات جنگی نہج پر استوار ہوں چنانچہ ماضی پر ”مٹی پاؤ“ کے نتیجے میں پاکستانی حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ کشیدگی میں کمی ہونی چاہئے اور چونکہ امریکہ بھی یہی چاہتا ہے لہذا اس کی بات پر لبیک کہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں سب کو یاد ہوگا کہ جب کشمیر کے مسئلہ پر سعودی عرب نے ایک سخت بیان جاری کیا تھا جس کے نتیجے میں سعودی ولی عہد سخت ناراض ہو گئے تھے حتیٰ کہ سعودی عرب نے اپنا 3ارب ڈالر کا قرضہ بھی واپس مانگ لیا تھا لیکن چین سے تاریخی معاہدہ کے بعد سعودی عرب ایران کے خلاف علاقائی صف بندی کو از سر نو ترتیب دے رہا ہے یہ بھی سنا ہے کہ چین کے مقابلہ میں صدر بائیڈن بیلٹ اینڈ روڈ کی طرح کا ایک پیکیج لا رہے ہیں تاکہ اس کے اتحادی ایک ایک کر کے چین کی گود میں جا کر نہ گریں اس کی مثال سری لنکا، نیپال، چبوتی، گمبیا اور کئی دیگر ممالک ہیں جو چین کے دائرہ اثر میں آ چکے ہیں چین ابھرتا ہوا عالمی سامراج ہے اس کی پالیسیاں عجیب و غریب ہیں۔

مثال کے طور پر وہ برما کی فوجی جنتا کی اس طرح حمایت کر رہا ہے جس طرح شمالی کوریا کر رہا ہے چند سال قبل چین نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی حمایت کی تھی چونکہ یہ علاقہ چین کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کیلئے درکار تھا حال ہی میں برمی جنتا نے آن سان سوچی کی نیم جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا چین کے سوا ساری دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ برما کی فوجی جنتا کو چین کی اندرونی حمایت حاصل ہے برما جس کا نام فوجیوں نے میانمار رکھا ہے بدترین آمریت کے شکنجے میں ہے وہاں پر عوام ایک بڑی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ امریکہ سمیت دنیا کے بڑے ممالک صرف زبانی کلامی مذمت پر اکتفا کر رہے ہیں اگر جنتا نے عوامی مزاحمت کچل دی تو جنوب مشرقی ایشیاء میں جمہوریت شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کو شدید دھچکہ لگے گا پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو برما میں مظالم پر خاموش ہے۔

جہاں تک چین ایران معاہدہ کا تعلق ہے تو یہ بلوچستان کے دونوں حصوں کو شدید متاثر کرنے کا موجب بنے گا جب سی پیک کا معاہدہ ہوا تھا تو اس کا مرکزی نکتہ اتصال ساحل بلوچستان تھا لیکن نواز شریف نے بلوچستان کی حکومت کو بہلا پھسلا کر بلکہ تاریکی میں رکھ کر بلوچستان کے ساحل اور وسائل کے بارے میں ایک خفیہ ڈیل کر لی آج تک اس سامراجی ڈیل کے مندرجات سامنے نہیں لائے گئے حکومت کی تبدیلی کے بعد عمران خان کی حکومت نے سی پیک منصوبہ سے سرد مہری برتنا شروع کر دیا۔

نواز شریف نے 57ارب ڈالر کے پیکیج سے پنجاب کو میٹروبس لاہور میں اورنج ٹرین پنجاب اور پشتونخواء میں 3 موٹرویز اور 3چار کول سے چلانے والے بجلی گھر بنائے بلوچستان اور سندھ کے حصے میں ایک آنہ بھی نہیں آیا منصوبہ کے تحت جو اکانومک زون بننے تھے وہ ابھی تک نہیں بن سکے بلوچستان اور پشتونخواء میں سرے سے کوئی کام نہیں ہوا البتہ گوادر اور حب میں زبردستی زمینوں پر قبضہ کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہاں پر فری اکانومک زون بنائے جائیں گے موجودہ حکومت کی پالیسی سے چین شدید مایوسی کا شکار ہے سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی تو بہت سارا چینی سرمایہ ہڑپ کر چکے ہیں اور چین کا سفیر روز پوچھ رہا ہے کہ ہمارا مال کہاں گیا اس غیر سنجیدہ بات سے قطع نظر ایک اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان چین اور امریکہ میں سے کس کا انتخاب کرے گا س سلسلے میں بڑا دباؤ آئیگا اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے اگر امریکی دباؤ قبول نہیں کیا گیا تو وہ پاکستان کیلئے بہت مشکلات پیدا کرے گا کیونکہ پاکستانی انتظامیہ شروع سے ہی ”امریکی یاری“ پر استوار ہے یہ امریکہ ہی ہے جو 70سالوں میں کئی بار پاکستان میں ”رجیم“ تبدیل کرواتا رہا ہے۔
بظاہر جمہوریت کا دعویدار مگر اندر کھاتہ سارے مارشل لاء وہی لگوا چکا ہے وہ ہمیشہ غیر منتخب آمرانہ حکومتوں کے ذریعے اپنے الو سیدھا کرتا رہا ہے۔

مستقبل قریب میں دو آزمائیشیں پاکستان کی منتظر ہیں ایک افغانستان جب امریکہ اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا اگر طالبان نے انتخابات میں حصہ نہ لیا اور بزور طاقت افغانستان پر قبضہ کی کوشش کی تو پاکستانی حکومت کو ان کا ساتھ دینا پڑے گا کیونکہ ابھی تک طالبان پاکستان کیلئے اہم اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں اگر ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہوئی تو لاکھوں مہاجرین دوبارہ پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کے سوا کوئی ملک ان افغان مہاجرین کو پناہ نہیں دے گا اگر امریکہ نے افواج کا انخلاء تاخیر سے کیا تو بھی طالبان معاہدہ توڑ کر ایک نئی جنگ کا آغاز کریں گے لیکن سب سے اہم آزمائش چین اور امریکہ کو بیک وقت خوش رکھنا ہے دونوں دیو قامت طاقتوں کو ایک ساتھ مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے یہ تو معلوم نہیں کہ اگر چین ناراض ہو گیا تو وہ کیا قدم اٹھائے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اپنے قرضوں کی وصولی کیلئے سارون گارنٹی طلب کرے گا اگر پاکستان نے قرضے واپس نہ کئے تو اسے اپنے اہم وسائل چین کو دینے پڑیں گے ان وسائل کا تعلق شمالی علاقہ جات سے بھی ہو سکتا ہے اور ساحل بلوچستان سے بھی اگر امریکہ کوناراض کیا گیا تو وہ اپنی مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کرے گا اگرچہ یہ فوری نوعیت کا کام نہیں ہے لیکن آئندہ ایک دو سال میں امریکی ارادوں کے خدوخال واضع ہونا شروع ہو جائیں گے سردست تو عمرانی حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ یو اے ای کی ایک کال پر لیٹ گئی ہے اور مسئلہ کشمیر کو تقریبا بھول گئی ہے۔

امریکہ کی ناراضی کا مطلب یہ ہوگا کہ سعودی عرب اور یو اے ای لاکھوں پاکستانی محنت کشوں کو بے دخل کریں گے جس سے یہ ریاست تقریباً دیوالیہ ہو جائے گی مالی اعتبار سے اس وقت بھی دیوالیہ جیسا ہی حال ہے لاکھوں پنشنرز کو ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے حفیظ شیخ کے سارے دعوے اور اقدامات ناکام ثابت ہو گئے ہیں اس لئے انہیں برطرف کر دیا گیا ہے اگر نئے وسائل کا انتظام نہ ہوا تو جون کے بعد سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو جائے گی اگر اسٹیٹ بینک کا ایکٹ منظور ہوا تو حکومت نوٹ چھاپنے کے اختیار سے بھی محروم ہو جائے گی عالمی میڈیا کے مطابق حکومت نے ہر طرح کا ترقیاتی بجٹ منجمد کر دیا ہے جس میں دفاع بھی شامل ہے اور غالباً سی پیک کے منصوبے کیلئے بھی مناسب بندوبست موجود نہیں ہے حکومت کو اپنے روزمرہ معاملات چلانے کیلئے آئی ایم ایف کی مزید شرائط کو تسلیم کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مہنگائی میں ناقابل بیان حد تک اضافہ جو جائے گا۔

عالمی میڈیا نے نشاندہی کی ہے کہ چین ایران سے سینٹرل ایشیاء تک متبادل کاریڈورر بنا رہا ہے اگرچہ یہ روٹ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ دور ہے لیکن اس روٹ پر سیکورٹی اور دیگر مشکلات نہیں ہیں اس کے علاوہ کئی ممالک کو اس منصوبے میں شرکت پر آمادہ کیا جائیگا جبکہ سی پیک سیکورٹی معاملات کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین بندرعباس کو استعمال کرے گا جبکہ انڈیا چاہ بہار سے ہرات تک ایک روٹ بنا چکا ہے یہ الگ بات کہ اگر افغانستان پر طالبان قابض ہو جائیں تو یہ روٹ کارآمد ثابت نہیں ہو گا اس کے مقابلہ میں بندرعباس سے سے جنوبی چین تک کا بیلٹ اور روڈ منصوبہ کی کامیابی کے بہت امکانات ہیں یہ الگ بات کہ امریکہ چین سے ٹکر جائیگا جس کے نتیجے میں ایک نئے عالمی مناقشے کا آغاز ہو گا وہ بھی بلوچستان کے دونوں حصوں میں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔