نظریاتی اساس – افروز رند

229

نظریاتی اساس

تحریر: افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

فیوچک نے کیا خوب کہاتھا ‘آپ میں سے جو لوگ تاریخ کے اس دور میں اپنے کے بعد بھی زندہ رہیں،میں ان سے ایک بات کہوں گا کہ ان لوگوں کو کبھی مت بھولیں جو اس جدوجہد میں حصہ لے رہے ہیں- ان ہیروز کو یاد رکھیں جنہوں نے اپنے اور آپ کی روشن مستقبل کیلئے اپنے جان کی بازی لگادی ہو۔”

جب کہ الگزنڈرڈوما نے کہاتھا کہ نظریہ خیال ہوتے ہیں، خیالات پر اس طرح قابو نہیں پایاجاسکتاہے، وہ نا محسوس طورپر پھیلتے ہیں، نفوذ کرجاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں-
اور وہ روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونماپاتے ہیں- جتنا تم ان کی شاخیں کاٹ ڈالوگےاتناہی ان کی زمیں دوز جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔

بلوچ قوم کی تاریخ ایسے لازول قربانیون سے بھری پڑی ہے- ہمارے قوم کے ان گنت ہونہار سپوتوں نے اس گلزمیں کیلئے اپنے جانوں کی قربانیاں دیں ہیں اوریہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے، کئی سپوت دشمن کی سلاخوں کے پیچھے تاریک زندانوں کی عمیق گڑھوں میں اپنے قوم کا درد محسوس کرنے کی وجہ پاند سلال ہوکر تاریخ رقم کررہے ہیں سینکڑوں کامریڈ ان زندانوں کی بے خبری میں امر ہوگئے، لاتعداد دوستون کی مسخ شدھ لاشیں گلی کوچوں، اجتماعی قبروں سے ملیں اور کئی سرمچار محاز پر دشمن کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے یہ تمام قربانیاں ہماری تاریخی ورثہ کا حصہ ہیں۔ اگر ہم ان جہدکاروں کی فلسفہ آزادی پر عمل کریں تو ہماری مستقل مزاجی اور استقلال میں مزید شجاعت و استقامت پیدا ہوگی، یہ الفاظ آپ نے( بی ایس او آزاد) کے ایک پروگرام میں کہے تھے جو آج تاریخ کے اوراق کا حصہ بن گئے ہیں۔

میں آج بلوچ قوم کے ہیروز میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں کچھ لکھنے کے جسارت کرہاہوں جس کی مستقبل مزاجی ہمت اور جدوجہد کو خراج تحسیں پیش کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں’ اور آپ کی جہدوجہد آزادی کے فلسفہ کو بیان کرنا راقم ناچیز کی بس کی بات نہیں بس دو الفاظ لکھنا چاھ رہاہوں۔ تاکہ چھٹی برسی کے موقع پر آپ کو خراج عقیدت پیش کرسکوں’ ہمارے اس عظیم کامریڈ کا نام شاھنواز ہے جسے ہم (میراث) کے نام سے بھی پکارتےتھے اور وہ حقیقی معنون میں بلوچ قوم کا میراث تھا۔

آپ 1990کو ضلع پنجگور کے تحصیل گچک میں پیدا ہوئے اور آپ نے ابتدائی اور مڈل تک کی تعلیم گچک سے اور میٹرک پنجگور ماڈل سکول سے پاس کی اور اسی دوران آپ کی بی ایس او آزاد کے دوستوں سے شنوائی ہوئی اور آپ غالباً 2010میں بی ایس او آزاد میں شامل ہوئے اور تا وقت شہادت Bso azad سے وابستہ تھے۔ کھٹن حالات میں دوستوں کی شہادت گرفتاریاں، گھروں پر حملے دشمن کی دھمکیاں یہ تمام رکاوٹیں آپ کی ہمت شکنی میں ناکام ہوئے اور آپ فکری حوالے سے مزید چست و توانا ہوئے اور جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے’ 2012 کو آپ کے کمرے پر ایف سی کے ریڈ کے بعد آپ نے کالج کے آخری پیپر بھی چھوڑ دیہے لیکن اپنے مقصد کے حصول کو نہیں۔

آپ کہا کرتے تھے کہ تعلیم غیرروایتی طریقے میں کتابوں سے حاصل کیا جاسکتاہے اور کافی مطالعہ کی وجہ سے آپ دوسرے تحریکوں، انقلابی شخصیات، ہسٹری اور فلسفے کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے ہمیشہ بات کے دوران دلائل سے بات کو منوانے کی صلاحیت بھی آپ کے اندر موجود تھا آپ جس کامریڈ سے ملتے اسے اپنے سحرمیں لےلیتے اور اس کا ساتھ گہری دوستی قائم کرکے جڑے رہتے۔

بہرکیف آپ بی ایس او آزاد کے اسیر چیئرمین زاھد بلوچ سے کافی متاثرتھے – زاھد کے لاپتہ ہونے کے بعد آپ نے کہاتھا کہ ہمارا دشمن سیاسی جدوجہد اور کتابوں سے خوفزدہ ہے لیکن ہم اپنے مستقل مزاجی سے یہ ثابت کرینگے کہ ہم اپنے فکر و فلسفہ سے پیچھے نہیں ہٹینگے چاہے اس کیلئے دشمن ہمیں مارے یا لاپتہ کردے ، ہمیں اپنے آنے والے کل کواپنے آج پر فوقیت دینی ہوگی ‘ اور آپ اس بات پر قائم بھی رہے۔ آپ کی شادی 20 اپریل 2015 کو ضلع آواران کے تحصیل مشکے وادی گورجک میں ہوئی عین دوسری رات21 اپریل 2015 کو دشمن کے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کو یہ بات گوارا نہیں ہوئی قریبا رات کے دو بجے گھر پر دشمن نے حملہ کرکے آپ کو ہاتھوں میں لگے سرخ مہندی کے ساتھ اٹھاکر دیگردوستوں (اعجاز بلوچ ‘ آفتاب بلوچ اور باسط بلوچ کے ساتھ اپنے کیمپ لےگئے، پورے دن فیملی گجر آرمی کیمپ کے احاطے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے بچوں کو چھوڑ دیں لیکن جابر اور سفاک دشمن نے آپ کو دیگر تیں دوستوں کے ساتھ شہید کرکے جھوٹ کا ڈھونگ رچایاکہ یہ جھڑپ میں مارے گئے ہیں، آپ کو ہاتھوں میں لگے سرخ مہندی اور جسم سے مہکتے سرخ خون کے ساتھ 22 اپریل 2015 کو آپ کے آبائی گاوں گچک میں آپ کو سپرد گلزمیں کردیا گیا۔ گوکہ دشمن نے جسمانی طورپر آپ کو ہم سے جدا کیا لیکن آپ اپنے نظریاتی فلسفہ آزادی اور جدوجہد کی صورت میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں