یہ حیات کے بھائی ہیں انہیں پڑھنے دو – محمد خان داؤد

256

یہ حیات کے بھائی ہیں انہیں پڑھنے دو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایک بلوچ حیات اپنی ہی زمیں پہ بھونکتی بندوقوں کا نظر ہوا
کئی اور بلوچ،بلوچ دھرتی سے دور بس اس لیے مسافر بنے ہیں کہ وہ پڑھنا چاہتے ہی
حیات بلوچ بھی پڑھنا چاہتا تھا
اور یہ مسافر بلوچ بھی پڑھنا چاہتے ہیں
دونوں کے جرم ایک جیسے، دونوں کے قصور ایک جیسے
حیات بلوچ کو گولیوں کی نظر کیا گیا اور حیات کی ماں دونوں ہاتھ اُٹھائے اب تک وشال آکاش میں خدا کو تلاش رہی ہے،اور ان مسافر بلوچوں کی مائیں اس فکر میں ہیں کہ اب ان کے مسافر بچوں کے ساتھ کیا ہوگا؟

حیات بلوچ کا پہلا اور آخری ہتھیار قلم تھا اور ان مسافر بلوچوں کا پہلا اور آخری نعرہ بھی ”قلم کا تقدس بحال کرو ہے!“
حیات بھونکتی بندوقوں کی نظر ہوکر گرا تھا تو اس کی جیب سے گر جانے والا قلم بھی خون آلود تھا
اور ان مسافر بلوچوں کا قلم بھی پسینے میں بھیگا ہوا ہے
حیات بلوچ کے اندوہناک قتل پر قومی میڈیا اندھا ہوچکا تھا اور اب مسافر بلوچوں کے سفر پر قومی میڈیا اندھا ہوچکا ہے
اس میڈیا کو حیات کا بہتا خون نہیں نظر آیا،اب یہی میڈیا بلوچ مسافروں کا سفر چھپا رہا ہے۔

یہی میڈیا حیات کی ماں کی وہ چیخیں بھی دبا گیا جس میڈیا کو وہ نعرے سنائی نہیں دے رہے جو بس حصولِ علم کے لیے ہیں۔
حیات کی کتابیں اب تربت کے کچے مکاں میں بند پڑی ہیں
اور مسافر طالب علموں کی امیدیں بھی اس طاق پہ رکھیں ہیں جسے گھر کہتے ہیں
حیات کا ابا بھی بوڑھے جسم پہ پرانے کپڑے پہن کر کھیتوں میں محبت کیا کرتا ہے
اور ان مسافر بلوچوں کے بابا بھی بوڑھے جسم پہ پرانا تہہ بند باندھے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
اک حیات وحشت کی نظر ہوا اور کئی حیات مسافر بنے ہیں
اک حیات آخری چیخ بن کر تربت کی سنگلاخ دھرتی پہ گرا
اور کئی حیات اپنے بنیا دی حق حصولِ علم کی خاطر ملتان سے اسلام آباد کی سنگلاخ زمیں پہ مسافر بنے ہیں۔

یہ مسافر بلوچ کسی گاڑی میں سوار نہیں،یہ مسافر بلوچ آپ کوئی گاڑی نہیں
ہاں برابر ان کے پیروں کے نیچے موٹر وے والا وہ رستہ بھی آئیگا جس کا کریڈٹ زرداری سے لیکر نواز شریف اور اب عمران خان بھی لے رہا ہے
اس ریاست نے تو ایک حیات کو ہی پڑھنے نہیں دیا آگے بڑھنے نہیں دیا
یہ تو کئی حیات ہیں، یہ تو پڑھنا چاہتے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں
اب تک تو تربت کے مضافات میں موجود ان مسافر بلوچوں کے بھائی حیات کی قبر خشک نہیں ہوئی
ابھی تو اس قبر پہ موجود جلتا دیا نہیں بجھا
ابھی تو اس قبر پہ موجود پھول ہواؤں نے نہیں بکھیرے
ابھی تو قبر پہ موجود پھولوں کی سرخ پریاں خشک نہیں ہوئیں
ابھی تو ماں اور چاند ہر روز اس قبر کو تکتے ہیں جس قبر میں حیات گھائل وجود کو لیجا کر سو گیا
ابھی تو تربت میں سوگ کے دن ہیں
ابھی تو اس گھر میں سوگ کے دن ہیں
ابھی تو حیات کے کتابوں نے رونا نہیں چھوڑا
ابھی تو حیات کی ماں کی آنکھیں تر ہیں
ابھی تو روز وہ ماں حیات کی کتابیں نکالتی ہیں اور پھر اس بستے میں بھر دیتی ہیں جس بستے سے حیات کی خوشبو آتی ہے
اگر حیات کا ابا کوئی بیرو کریٹ ہوتا تو نہ تو وہ اپنے بوڑھے جسم پہ پرانے کپڑے پہن کر کسی کھیت میں کام کرتا
نہ حیات اس کا ہاتھ بٹاتا اور نہ ہی بے قابو بھونکتی بندوقیں اس پر بھونکتی اور نہ ہی حیات کی جان جا تی۔

حیات کسیS IBA,LUMمیں پڑھتا اور امتحانات ختم ہو تے ہیں شمالی علائقہ جات چلا جاتا
اپنے بدن کو بھونکتی بندوقوں کی نظر کرنے تربت کے اس ماحول میں کبھی نہیں آتا جس ماحول میں بندوقوں والے چھت پر دوڑتی بلی سے بھی ڈر جا تے ہیں اور اپنی وحشت بلی پر گولیوں سے نکالتے ہیں۔
حیات بلوچ کا بابا بھی کھیت مزدور تھا
اور ان مسافر بلوچوں کے بابا بھی کھیت مزدور ہیں
حیات بلوچ بھی سرکا ری تعلیمی اداروں کی ٹوٹتی بینچوں پر بیٹھا کرتا
اور یہ ملتان کے مسافر بلوچ طالب علم بھی سرکا ری ٹوٹتی بینچوں پر بیٹھتے ہیں
حیات بھی ذہین با ہنر تھا اور یہ مسافر بلوچ طالب علم بھی ذہین اور باہنر ہیں۔
حیات بلوچ بھی اپنی غربت کے ہاتھوں S IBA,LUMمیں جانے سے رہ گیا اور وہ مسافر بلوچ جو اب سفر میں ہیں وہ بھی اپنی غربت کے ہاتھوں IBA,LUMSمیں نہیں جا سکے۔

ایسا نہیں کہ حیات بلوچ اور یہ مسافر بلوچ ذہین اور بے ہنر ہیں یہ بہت قابل ہیں انہیں معلوم ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں یہ جانتے ہیں کہ ان کے جسموں پر جو کپڑے ہیں ان کپڑوں کو سلوانے اور پھر جسم تک لانے میں اس کی ماں نے کتنے روزے رکھے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ کوئٹہ سے ملتان کا کرایا کتنا ہے اور وہ کرایا ان کے بڑے بھائی اور بابا نے کتنے دنوں کے فاقے برداشت کیے ہیں تو وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ان کے پاس جو کتابیں ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے وہ کتابیں کیسے حاصل کی ہیں،ان کے پاس جدید فون یا لیپ ٹاپ ہے تو وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ کیسے خریدے ہیں۔وہ ذہین ہیں وہ بے ہنر یا کند ذہن نہیں
حیات اپنے تمام خوابوں سمیت قتل ہوا
پر مسافر حیاتوں کی آنکھوں میں خوابوں کی ضیاء باقی ہے
حیات کے قتل کو ملکی میڈیا نے بلیک کر دیا تھا اب ملکی میڈیا ان مسافر بلوچوں کے سفر کو بلیک کر رہا ہے۔

کیا ملکی میڈیا جانتا ہے کہ کمزور اور اداس پیروں کا سفر کیا ہوتا ہے؟
یہ ملکی میڈیا لطیف نہیں،تو کیسے جان پائے کہ سفر کیا ہوتا ہے
کاش آج لطیف ہوتا اور ان کارپوریٹ میڈیا کو بتا پاتا کہ سفر کیا ہوتا ہے
اور سفر میں رُل جانا کیا ہوتا ہے
مسافت کیا ہو تی ہے اور سفر کا درد کیا ہوتا ہے؟
آج لطیف ہوتا تو جاتا اس حیات کے گھر پہ جسے قتل کیا گیا
اس ماں کے آنسو پونچھتا جو حیات کی ماں ہے اور بہت اکیلی اور اداس ہے
اور لطیف اپنے فقیروں سے کہتا آج رسالو کو چھوڑو پر یہ راگ گاؤ جس راگ میں ہوتا کہ
”یہ حیات کے بھائی ہیں انہیں پڑھنے دو“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔