کوئٹہ: پی ڈی ایم جلسہ، لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ

349

بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ کے نوروز خان اسٹیڈیم میں پاکستان کے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا تیسرا جلسہ عام منعقد کیا گیا۔

جلسہ عام سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر مریم نواز شریف، جمیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان، بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد اختر مینگل، پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی، نشنیل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وڈیو لنک کے ذریعے شرکاء سے خطاب کیا جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ کو کل کوئٹہ ایئر پورٹ سے واپس کراچی ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔

کوئٹہ جلسہ کے دوراں شہر میں موبائل سروس بند رہا جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے مختلف سڑکوں کو بند کرنے پر بلوچستان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ان کے مطابق سڑکوں کی بندش سے ہزاروں لوگ جلسہ گاہ پہنچ نہیں سکیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنے خطاب میں لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حسیبہ قمبرانی نامی نوجوان لڑکی نے اپنے تین لاپتہ بھائیوں کا قصہ مجھے سنایا ہے، مریم نواز نے اپنے تقریر کے دوران حسیبہ قمبرانی کو اپنے پاس بلا کر کہا کہ میری والدہ کی وفات والد کی گرفتاری پر میرے آنکھوں میں آنسو نہیں آئے لیکن آج حسیبہ کی دردناک کہانی سے میرے آنسو نکل آئے ہیں،
مریم نواز نے موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

مریم نواز نے کہا کہ راتوں رات باپ کے نام سے ایک پارٹی بنائی گئی، اس پارٹی نے ایک بچے کو جنم دیا اور اگلے ہی دن اسے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب اس ملک کے قانون بنائے جارہے تھے اور ہم سے معاہدات کیے جا رہے تھے تو اس وقت یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بلوچوں کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ آپ کیساتھ برابری اور عزت سے پیش آیا جائے گا۔

اختر مینگل نے حاضرین جلسہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو برابری اور عزت مل رہی ہے۔ کیا ان سڑکوں پر آپ کے لیے کوئی برابری کا سلوک کیا جا رہا ہے۔

اختر مینگل نے کہا کہ یہاں اب آپ کو اجتماعی قبریں ملیں گی۔ انہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے کیمپ اور ان کی کراچی اور اسلام آباد کی طرف پیدل احتجاجی مارچ کا بھی ذکرکیا ،

اختر مینگل نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بیگمات ہم سے آ کر پوچھتی ہیں کہ کم از کم یہ تو معلوم ہو جائے کہ ہم بیوہ ہیں یا نہیں؟ ان بچوں کا غائب کرنیوالا کون ہے؟ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن کرنے والا کون ہے؟

سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’سیاست میں مداخلت بھی ہم ہی کرتے ہیں ناں، ڈبے ہم بھرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں راتوں رات پارٹیاں بن جاتی ہیں۔ اب ایک پارٹی بنی جس کا نام باپ ہے۔ پہلے انہوں نے اس پارٹی کا نام پاپ (پاکستان عوامی پارٹی) رکھا تھا پھر کسی نے کہا کہ اس کا مطلب گناہ ہے تو پھر باپ کے نام سے یہ گناہ ہمارے ذمہ لگا دیا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر بلوچوں کی ملکیت ہے، وفاق کو یہ حق نہیں کہ بلوچستان کے سمندروں پر قبضہ کرے۔

مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں بھی لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے ادارے یہاں کیوں خاموش ہیں۔ وہ آئیں اور مداخلت کریں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم اداروں کے دشمن نہیں ہیں۔ اداروں کا احترام کرتے ہیں، ادارے ملک کے لیے ضروری ہیں۔ ہم اداروں کے سربراہان کی عزت کرتے ہیں۔ مگر جب وہ مارشل لاء لگاتے ہیں اور من پسند حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے شکوہ کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی اگر اسٹیبلشمنٹ اس حکومت کی پشت پناہی سے باز آجائے اور کہے کہ انہوں نے ان کو اقتدار میں لا کر غلطی کی تو پھر ان کی عزت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریاست مدینہ نہیں ہے بلکہ کوفہ ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ این آر او اب تمہاری ضرورت ہوگی۔ کہتا ہے کہ ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا۔ ان کے مطابق یہ تو 1947 سے لے کر آج تک نہیں ہوا۔ اب یہ کہتا ہے کہ بھنگ پیو، چرس پیو۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور میں آپ کا انکار کرتا ہوں۔ میں نے پہلے دن سے اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں۔

بلاول بھٹو نے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے لوگ بہادر ہیں اور اپنے حقوق حاصل کرنے لیے اس صوبے نے خون دیا ہے۔ بلوچستان کے عوام کا سر کٹ سکتا ہے مگر وہ کسی کے سامنے جھک نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ عوام اب آزادی چاہتی ہیں، عوام اپنے وسائل کی آزادی چاہتے ہیں، بے روزگاری سے آزادی چاہتے ہیں، سوچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ کس قسم کی آزادی ہے۔ جہاں نہ عوام آزاد، نہ سیاست، نہ صحافت آزاد نہ ہمارا عدلیہ آزاد۔
اس وقت سب جمہوری قوتیں ایک سٹیج اور ایک پیج پر ہیں۔ اب سب کو اس پیج پر آنا پڑے گا ورنہ اس سب کو گھر جانا پڑے گا۔