خدا اور عشق، بہت اکیلے ہیں – محمد خان داؤد

217

خدا اور عشق، بہت اکیلے ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی جو چاہے سوچے، پر محبت وہ مقام ہے جہاں کچھ نہیں رہتا، بس توُ ہی توُ بن جاتا ہے۔ جہاں پر ،،میں،،رہتی ہے وہ تو عشق کی سوڑھی گلی بھی نہیں ہوتی۔ دل کی گلیاں پیچیدہ نہیں، دل کی گلیاں سوڑھی نہیں۔ دل کی گلیاں بہت کشادہ ہوا کرتی ہیں، اور محبت کا مسکن وہی دل ہوتا ہے۔ جہاں پر،،عشق، محبت ، اور خدا ،، کا بسیرہ ہوتا ہے۔ جب محبت دل میں گھر کرتی ہے تو سب رنگ سانول لگتے ہیں۔ من میں تتلیاں ہی اُڑتی محسوس ہو تی ہیں۔ دل کرتا ہے کہ یہ دل بھی محبت کی تتلی بن جائے اور اسے اپنے ہاتھ سے پکڑے محبوب کو در پر چھوڑ آئے۔ پھر دل کہتا ہے بس ،،دیارِ دل داستانِ محبت،، میں ہی جیا جائے۔ محبت اندھی آنکھوں میں نور کا ہالا ہے۔ محبت وہ خواب ہے جسے دیکھنے کے بعد نیند نہیں آتی۔ ابتک نیند خوابوں میں لے جاتی ہے۔ اور ایک خواب نیند ہی اُڑا دیتے ہیں۔ تو محبت وہ خواب ہے جو نیند ہی اُڑا دیتی ہے۔ اگر محبت میں نیند آ بھی جائے تو من کے آنکھوں حالت ایسی ہو تی ہے جس کے لیے بھٹائی نے کہا تھا کہ
،،رات بہ منھنجی روُح
سجن پنھنجا ساریا!،،
،،رات بھی میرے روُح نے، اپنوں کو بہت یاد کیا!،،

محبت نیند نہیں ہے۔ محبت تو جاگ ہے۔ محبت سورج کا ڈھل جانا ہے۔ محبت چاند کا طلوع ہونا ہے۔ محبت چاند کا کسی بجتی، بہتی ندی میں عکس ہے۔ محبت اپنوں کو دور کرنا نہیں ہے۔ محبت تو اپنوں کو جھپی پانا ہے۔ محبت دلاسہ نہیں ہے۔ محبت وہ یقین ہے جس میں بہت قرار ہوتا ہے۔ محبت بے قراری بھی ہے۔ محبت انتظار بھی ہے۔ تھوڑا انتظار۔۔۔۔ طویل انتظار۔!

محبت سب کچھ چھپانا نہیں۔ محبت بہت کچھ لے کر تھوڑا سا دینا بھی نہیں
محبت تو سب کچھ لُٹا دینے کا نام ہے۔

محبت سودہ نہیں، محبت بولی بھی نہیں۔ محبت بیوپار بھی نہیں
محبت تو سب کچھ دے دینے کا نام ہے۔ محبت جسم کا نام بھی نہیں۔ محبت روح کی گہرائی میں اتر جانے کا نام ہے۔ محبت بس ہنسنے کا نام نہیں۔ محبت تو رونے کا نام بھی ہے۔

محبت ساتھ رہنے کا نام نہیں۔ محبت تو،،کملی کر کے چھڈ گئے ہو پئی کھک گلیاں تاں رولاں،، کا نام ہے۔

محبت اس ہوا کا نام نہیں جس میں دل کے تار چھڑ جاتے ہیں۔ من کو سب رنگ بھلے لگتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ سب یوں اچھا رہے۔ پر محبت وہ دھوپ بھی ہے جس میں اکیلی مائی بھاگی کسی کو یاد کر کہ کہہ رہی ہے کہ،،کھڑی نیم کے نیچے میں تو ھیکلی!
محبت میں اجل کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ پر محبت میں وہ دل کے ساز سنائی دیتے ہیں، جو محبوب کے لیے بج رہے ہوتے ہیں۔ محبت صبح ہے۔ محبت شام ہے۔ محبت وہ پل ہے جو زندگی میں آتا ہی نہیں اور اگر آتا ہے تو بہت دیر سے چاہیے اس کی ایسی حالت ہو کہ
،، بوڑھا ہویا شاہ حسین
چٹی تھی ڈاڑھی !،،

محبت مل جانا ہے۔ محبت مل کے بچھڑجانا ہے۔ محبت کبھی نہ ملنا ہے۔ اور نہ مل کے بہت رونا بھی محبت ہے۔
ٹوٹے گھڑے سے دریا میں اتر جانا محبت ہے۔ پانی میں پانی سے مل کر پانی ہوجانا محبت ہے۔ دریا میں مچھلیوں کی خوراک بن جانا محبت ہے۔ محبت میں بس محبت نہیں ہوتی۔ پر محبت میں رسوائی بھی ہوتی ہے۔ عزت محبت نہیں۔ رسوا ہوجانا محبت ہے۔ گوری بانہوں میں آجانا محبت ہے۔ اپنی شرٹ کے بٹن بند کر دو مجھ سے محبت کا مطلب نہ پوچھو محبت ہے۔ سیاہ بالوں کو سنوارنا محبت ہے۔ سرخُ رخساروں کو چومنا محبت ہے۔ گلابی لبوں کے قریب جانا اور پیاس محسوس کرنا محبت ہے۔ پتلے سے کانوں میں باریک سے ایرنگ کا جھومنا ایسا کہ جیسے مسیح مصلوب ہو۔ اس مصلوب زدہ مسیح کو دیکھنے کی حسرت محبت ہے۔ گوری گردن میں چاندی کی صیلب کا پسینے سے شرابور ہونا محبت ہے۔ چاندی کی صلیب کا اُلٹنا محبت ہے اور ہاتھ یہ چاہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اس چاندی کی صلیب کو سیدھا کر دیں محبت ہے۔ تو مجھے بس اتنی سی نوکری دے دے کہ جب راہ چلتے یہ چاندی کی صلیب اُلٹ جائے تو میں اسے سیدھا کر دیا کروں۔ یہ خیال محبت ہے۔ تیز چلنے سے چھاتیوں پر مناروں میں زلزلہ آنا محبت ہے۔ ان کا اچھلنا۔ ان کا ڈولنا۔ ان کا جامد نہ رہنا محبت ہے۔ ان میں زندگی کی رمق محبت ہے۔ اور میرا ان کو محبت سے دیکھنا ماں کو یاد کرنا کہ یہ چھاتیاں کس بچے کی منہ کی زینت بنیں گی ماں کا یاد آجانا محبت ہے۔ گلابی کپڑوں میں سفید بدن کا ایسے نکلنا کہ جیسے سندور کی ڈبیہ محبت ہے۔ اور تیری باتیں!
ایسا کہ جیسا کوئی مندر میں بجتا سازاور وہ ساز محبت ہے۔ محبت قربت نہیں۔ محبت تو دوری ہے۔

محبت مٹھاس ہے۔ محبت باتیں نہیں۔ محبت خاموشی ہے۔ محبت مہندی ہے۔ محبت مہندی لگا ہاتھ ہے۔ محبت وہ رنگ ہے جو اترتا نہیں۔ محبت وہ رنگ ہے جو چھڑتا ہی نہیں۔ محبت مہندی سے لکھا ہاتھ پر نام ہے، جو لکھتے ہیں پانی دھو دیتے ہے۔ پھر لکھتے ہیں
،،ہاتھ سے اپنے لکھ کر نام اپنا
میں تمہیں سونپ دوں ذرا ٹہرو!،،

محبت مور ہے۔ محبت وہ ڈیل ہے جو اپنے مور کے مر جانے پر ماتم کرتی ہے۔ نوحہ کناں ہوتی ہے۔
،،ویو وسکارے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!،،
مورنی کی دانھون محبت ہے۔ ہنسنا محبت ہے۔ ہنس ہنس کر رونا محبت ہے۔ محبت میں آنسوؤں کا رم جھم محبت ہے۔ وہ بارش کے قطروں کہ جیسے آنسو محبت ہے۔ وہ روٹھنا منانا محبت ہے۔
پنوں کا رات کو نکل جانا محبت نہیں ہے۔ سسئی کا سفر محبت ہے!
پانی کا جھرنے سے گرنا محبت ہے۔
تاروں کا رات میں کھلِ جانا محبت ہے۔

کھلے پستان محبت نہیں ہے، ادھ ننگے پستان بھی محبت نہیں،
ململ کے کپڑے سے پستانوں کو ڈکھنا محبت ہے۔ ان پر بار بار نظر اُٹھ جانا محبت ہے۔

محبت کوئی ہجوم نہیں، محبت تو اکیلی ہوتی ہے۔ اکیلی آتی ہے۔ اور اکیلی چلی جاتی ہے۔

نظر محبت نہیں، نظر تو بد ہوتی ہے، محبت تو آنکھیں ہوتی ہیں۔ محبت تو وہ آنسو ہوتے ہیں جو کچھ نہ ملنے پر بھی بہتے ہیں۔ اور کچھ مل جانے پر بھی بہتے ہیں۔ محبت ہجوم نہیں ہوتا۔ محبت تو اکیلا پن ہوتا ہے۔

محبت میں انسان لوگوں سے دور اور دل کے قریب ہوجاتا ہے۔
لوگوں کو نہ سننا محبت ہے۔ دل کے ساز کو سننا محبت ہے!
حالِ دل سے نکل کر حالِ دل میں رہنا محبت ہے۔
آنتوں کی پیاس بجھ جائے اور لبوں کی پیاس کا بڑھ جانا محبت ہے!
محبت میم ہے!
محبت ح ہے!
محبت ب ہے!
محبت ت ہے!
اور تمہارے سوا میرا کون ہے؟!
جو کوئی نہیں وہ محبت ہے!

محبت منزل نہیں، محبت سفر در سفر ہے! محبت کوئی گھر بھی نہیں۔ محبت اس گھر کا کوئی در بھی نہیں۔

محبت تو وہ دہلیز ہے۔ وہ چھانٹ ہے، جس پر آنکھیں اور دل جھک جاتے ہیں
محبت میں منزلیں نہیں ہوتیں۔ محبت میں تو مسافتیں ہوتی ہیں۔
ایسے مسافتیں کہ جب چلتے میں کوئی پتھر بھی دیکھ لے تو وہ بھی روئے۔
پتھروں کا رونا محبت ہے۔ محبت کوئی سایہ دار شجر نہیں ہوتا
محبت تو کڑی دھوپ ہوتی ہے۔ جو جلاتی ہے اور بس جلاتی ہے۔

محبت سندور کی ڈبیہ ہوتی ہے، محبت کوئی حرف نہیں ہوتی، محبت تو بس ایک وعدہ ہوتا ہے۔
جو دل سے دل کا ہوتا ہے
محبت فرشتے نہیں ہوتے، محبت کوئی پیمبر بھی نہیں ہوتے۔
محبت یا تو محبوبہ ہوتی ہے۔ یا ماں ہوتی ہے۔ یا پھر مولا!
سب کھو جانے کا نام محبت نہیں۔ سب مل جانے کا نام بھی محبت نہیں!
محبوبہ۔ ماں اور مولا کا مل جانا محبت ہے۔

محبت ایسی ہے کہ جیسا صحرا میں بارش! جیسے رکتے نبض کا چل جانا۔ جیسے مولا کا مل جانا۔
کوئی بہت ہی معمولی سا تحفہ لیے اسے دینے کی آرزو محبت ہے۔ لوگوں سے بھڑجانا ۔ پھر اس سے ڈرنا محبت ہے۔ محبت مقام ہے۔ جہاں پر محبت ،عشق اور خدا بستا ہے۔ محبت تخت نہیں ہے۔ محبت وہ چاند ہے جو دل سے طلوع ہوتا ہے۔ اور آنکھوں میں اتر جاتا ہے۔

محبت خار دار تار نہیں۔ محبت کوئی بارڈر بھی نہیں۔ محبت کوئی سرحد بھی نہیں۔
محبت تو بس بارش ہے۔ جو دل پر برستی ہے، جو نہ تو خار دیکھتی ہے نہ پھول اور سب کو سیراب کر جاتی ہے۔ تم بھی تو میری زندگی میں محبت بن کر آئی ہو۔جو مجھے سیراب کر رہی ہے۔ تم مجھ پربارش کے جیسی برس رہی ہو اور میں برف کی طرح پگھل رہا ہوں۔
میں ایک کڑی دھوپ میں بہت جلا ہوں اور تم سایہ بن کر میرے پاس آئی ہو۔
تم محبت ہو اور اس کی طرح مجھے گیلا کر رہی ہو۔
اور میں بھی تو مہ کدے کا در ہوں بہت خاموش۔ بہت ہی خاموش!
تم پانی ہو مجھے بہا لے گئی ہو اور میں بھی تو کھک ہوں تمہارے ساتھ رُل رہا ہوں!
تم آگ ہو اور مجھے جلا رہی ہو۔ پر میں بھی تو پتھر ہوں اور پتھر آگ میں نہیں جلتے۔
تم سب کچھ ہو پر بتاؤ کہ محبت بھی ہو؟
ہاں تم محبت ہو اور مجھے تم سے پیار ہے
،،میں اب ہر شخص سے اُکتا چکا ہوں
فقط کچھ دوست ہیں، اور دوست بھی کیا،،
نہیں معلوم تم میری دوست ہو یا محبت!
اگر دوست ہو تو دور ہو جاؤ
اور اگر محبت ہو تو من میں آجاؤ
من میں!
خدا اور عشق بہت اکیلے ہیں
اور میری ماں دیوانی ہے!
تو میں
کہاں جاؤں!
کہاں جاؤں!
کہاں جاؤں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔