آزاد دیس کے بعد شال کو تیرے ماتھے پہ بندھیا بناکر سجاؤں گا – محمد خان داؤد

186

آزاد دیس کے بعد شال کو تیرے ماتھے پہ بندھیا بن کر سجاؤں گا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

غالب کو دلی سے محبت تھی پر غالب دلی کو گالی بھی دیتا تھا
اگر کوئی غالب کو کوئی غور سے پڑھے اور جہاں جہاں دلی کا زکر ہو اور غالب پریشان حال ہو تو آپ دیکھیں گے کہ غالب دلی کو کن الفاظوں میں یاد کر رہا ہے
”تو شہرِ زیاں ہے،تو شہرفساں ہے،تو شہر نواں ہے،دلی تو دیوانی ہو گئی ہے۔تو شہر بے اماں ہے،تو ڈوبتی نیا ہے،دلی تو گرتا مکاں ہے،دلی تو لوُ کی زمیں ہے،دلی تو قبرستان ہے، دلی تو اتنا گرم کیوں ہے
اے شہر،تو شہر نہیں
تو قہر ہے!“
اگرکوئی غالب سے کہتا کہ اپنے شہر کو گالی کیوں دیتے ہو
تو غالب جواب دیتا ”یہ مہ کا شہر ہے،یہ پیالے کا شہر ہے،یہ محبوبہ کی بستی نہیں!“

دلی کے اور بھی بہت سے القابات جو غالب کی زباں سے رواں ہوئے ہیں وہ غالب کی اردو،فارسی شاعری اور غالب کے اٹھارہ سو خطوط میں جا بجا موجود ہیں جو غالب نے دلی کو دیے ہیں
پر میں اپنی محبوبہ کی بستی کو گالی کیوں دوں؟

وہ بستی جس بستی میں محبوبہ کے قدم پڑے اور وہ نرم و ملائم قدم اسی زمیں پہ ثبت ہوگئے۔آج بھی وہ نرم و ملائم پیروں کے نقش اس دھرتی میں سانس لیتے محسوس ہو تے ہیں،آج بھی دل کی آنکھوں سے دیکھنے پر ان پیروں کے نقش میں ایک زندگی رواں ہے۔آج بھی جب بہت قریب سے دیکھتا ہوں تو ان پیروں کے نقش میں ہری،نیلی رگیں اور ان ہری،نیلی رگوں میں سرخ لہو دوڑتا محسوس ہوتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پیر کے نقش ان نشانوں سے باہر آجائیں گے اور فرمائیش کریں گے کہ
”چلو آئیس کریم کھانے چلیں!“
اور ان پاؤں کے ایسے نقش کی فرمائیش سن کر میرا دل دھڑکنا بھول جاتا ہے
میں ایسے شہر کو گالی کیسے اور کیوں کر دے سکتا ہوں؟
وہ شہر جس شہر نے میری محبوبہ کو برداشت کیا،وہ شہر جس شہر نے میری محبوبہ کے نازوں کا سہا۔وہ شہر جس شہر نے میری محبوبہ کی فرمائیش پر اپنی نیندوں کو خراب کیا،وہ شہر جس نے میری پیاری کی فرمائیش پر رات کے آخری پہروں میں بند دکانوں کے شٹر کھول کر اپنا سب کچھ عیاں کیا۔

وہ شہر جس نے میری محبوبہ کے قدموں کو اپنے سینے پر سہا۔وہ شہر جس کی بازاریں منتظر رہا کرتیں کہ وہ کب تشریف لا تی ہے،وہ شہر جس نے اس کی موجودگی کو محسوس کر کے ان گلیوں کو بھی روشن رکھا جن گلیوں سے وہ گزرتی،وہ شہر جو دل جتنا مختصر پر پیار جتنا وسیع ہے۔وہ شہر جو کانوں جتنا چھوٹا پر سماعت جتنا بڑا ہے۔وہ شہر جو زباں جتنا چھوٹا،شروع ہوا اور ختم پر وہ شہر اہلیان بلوچستان کی زبان ہے،
جب منہ میں زبان نہ ہو تو کون کیا بولے؟

میں کوئٹہ کی بات کر رہا ہوں،وہ کوئٹہ جس نے میری محبوبہ کو اپنی بانہوں میں سمائے رکھا۔
وہ کوئٹہ جو سر شام روشن ہوجاتا کہ اس شہر میں میری محبوبہ آئی ہوئی ہے
وہ کوئٹہ جو اسے دیکھ کر اپنے مختصر سے دامن کو پھولوں سے بھر دیتا کہ وہ کچھ تو پھوک چن لے
وہ کوئٹہ جو اسے دیکھ کر کبھی گلابی ہو جاتا اور کبھی سفید
وہ کوئٹہ جس کی رنگت اب میری محبوبہ کے گالوں جیسی ہوکر رہ گئی ہے
تھوڑی سے سفید بہت سے گلابی
بہت سی سفید،تھوڑی سی گلابی

وہ کوئٹہ جو مجھ سے دور ہے پر مجھے بہت عزیز ہے۔مجھے کوئٹہ سے محبت ہے،کیوں کہ کوئٹہ کے دامنوں میں میری محبوبہ چلا کرتی ہے اور کوئٹہ کی گلیاں میری محبوبہ کے پسینے سے بھر جا تی ہے۔

مجھے کوئٹہ سے ایسی ہی محبت ہے جیسی ابھی چند کو ٹھٹہ سے ہوا کرتی تھی
مجھے کوئٹہ سے ایسی ہی محبت ہے جیسی محبت لاہوتیوں کو لامکاں سے ہوا کرتی ہے
مجھے کوئٹہ سے ایسی ہی محبت ہے جیسی کونجوں کو اپنے ولر سے ہو تی ہے
مجھے کوئٹہ سے ایسی ہی محبت ہے جیسی محبت لطیف کے فقیروں کو لطیف کے کلام سے ہوتی ہے
مجھے کوئٹہ سے ایسی ہی محبت ہے جیسی محبت صباء دشتا ری کو بلوچی زباں سے ہوا کرتی تھی
میں غالب نہیں
کوئٹہ شہر مہ نہیں
کوئٹہ شہر پیالا نہیں
کوئٹہ شہر زیاں نہیں
کوئٹہ،قہر نہیں
میں اس شہر کو کیسے گالی دے سکتا ہوں جہاں ایک بار محبت نے قدم دھرے اور وہ وہیں پر ثبت ہوگئے!
اور میرے کان دھرنے پر وہ پیر اب بھی دھڑک رہے ہیں ان پیروں میں لہو دوڑ رہا ہے اور قریب جانے پر کہتے ہیں ”میرا ہاتھ پکڑو اور چلو چلیں!“
وہ پیر جن میں رگیں تمام اپنی تمام جولانی سے موجود ہیں کچھ سبز کچھ نیلی
میں اس شہر کو گالی کیسے دے سکتا ہوں؟!!
وہ شہر جو بند آنکھوں سے بھی دکھتا ہے
وہ شہر جو آنکھیں کھلنے پر پرے،پر آنکھیں بند کرنے سے پاس محسوس ہوتا ہے
وہ شہر جو اس سرائیکی شعر جیسا ہے کہ
”اساں دریا ڈٹھا پُل تے بیھ کے
پر اساں محبوب ڈٹھا اکھیاں بند کر کے!“
”میں نے تو دریا پُل پر بیٹھ کر دیکھا،پر جب یار کی بات کی جائے آنکھیں بند کرتا ہوں تو وہ سامنے ہوتا ہے!“
وہ شہر جس سے محبوب کے پسینے کی خوشبو آتی ہے
وہ شہر جس کی گلیوں میں یار کے قدم نقش ہیں
وہ شہر جس کی گلیوں میں محبت منتظر ہے
وہ شہرجو محبوب جیسا ہے
اور محبوب ہو بہ ہو شہر جیسا ہے
جب دیس آزاد ہوگا
تو میں آزاد دیس میں اس شہر کو لیکر محبوبہ کے ماتھے پر
بندھیا بنا کر سجا دوں گا!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔