کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری

269

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4057 دن مکمل ہوگئے۔ نال سے سماجی کارکن عبدالحق بلوچ، عبدالمالک بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا۔

لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، لاپتہ امداد اللہ، بلال احمد بلوچ، جمیل سرپردہ اور دیگر کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ امداد اللہ کی عمر رسیدہ والدہ نے بیٹے کی بازیابی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو چھ سال سے لاپتہ رکھا گیا ہے جن کے حوالے سے حکومت پاکستانی کے علاوہ کسی کع معلومات نہیں لہٰذا انہیں رہا کیا جائے۔

متحدہ عرب امارات اور بعدازاں پاکستان سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی والدہ کا کہنا تھا کہ بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج کو دو سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن تاحال ملکی اداروں کی جانب سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا جارہا۔

انہوں نے کہا راشد حسین کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور کراچی میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج سمیت لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن میں بھی حاضری دیتی رہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان میرے بیٹے کے جبری گمشدگی میں برابر کے شریک ہیں اور میں انصاف کے حصول تک اپنا احتجاج جاری رکھوں گی۔

احتجاجی کیمپ کی سربراہی کرنے والے وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ اگست کے پورے مہینے جہاں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ ملکر بربریت جاری رکھی تو وہی وی بی ایم پی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیئے گئے لیکن ریاستی میڈیا اور پاکستان میں داخلی انسانی حقوق کی تنظیموں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تنظیموں نے قسم کھائی ہے کہ بلوچ نسل کشی پر وہ اپنی آنکھ اور کان بند رکھیں گے۔

ماما قدیر نے کہا کہ پرامن جدوجہد میں برسر پیکار سیاسی تنظیموں کے رہنماوں، طلباء تنظیموں کے رہنماوں، ورکروں حتیٰ کہ ہمدردوں کے رشتہ داروں کو بھی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستانی سامراج نے ہمیشہ نشانہ بنایا ہے۔ کبھی فوجی آپریشن کی صورت میں تو کبھی گھروں پر حملہ کرکے مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگالی انقلابی تنظیم عوام کے ساتھ اس ریاست کی ناروائیاں اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ سندھی، پشتون اور بلوچ قوم پر بربریت اور پرامن جدوجہد کرنے والے ورکروں، رہنماوں کا اغواء اور قتل عام بھی کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں ہے۔