چار سال بعد بھی شبیر بلوچ کومنظر عام پر نہ لانا تشویشناک ہے- بی ایس او آزاد

153

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں تنظیم کے سابق انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو چار سال کا دورانیہ مکمل ہونے اور تاحال انھیں منظر عام پر نا لانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے ایک طالبعلم رہنما کی طویل المدتی دورانیے پر محیط جبری گمشدگی اور پابند سلاسل کرکے اذیت کا شکار بنانا انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ اور اسی اثنا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں سمیت تمام عالمی اداروں کی پراسرار خاموشی نہایت ہی تشویشناک ہے۔

ترجمان نے کہا کہ 4 اکتوبر 2016 کو پاکستان آرمی نے کیچ کے علاقے گورکوپ میں آپریشن کرکے شبیر بلوچ سمیت کئی افراد کو جبری طور لاپتہ کیا۔ لاپتہ ہونے والے بعض افراد کو مختلف اوقات میں رہا کر دیا گیا جبکہ شبیر بلوچ چار سال گزرنے کے بعد بھی تاحال لاپتہ ہیں۔ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تنظیم اور شبیر بلوچ کی خاندان کی جانب سے کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج ریکارڈ کیے گئے اور اس حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی و علاقائی اداروں کے پاس شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کی کیس بھی رجسٹر کرچکے ہیں لیکن آج تک شبیر بلوچ کے حوالے سے خاندان کو کسی بھی قسم کی معلومات فراہم نہیں کیے جارہے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ طلبا رہنماؤں کو سیاسی اسیر بنا کر اذیت گاہوں کے نظر کرنا بلوچ نوجوانوں میں خوف و ہراس پھیلا کر انھیں قومی تحریک سے دور کرنے کی منصوبہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے طالبعلم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ تسلسل کیساتھ جاری ہے جن میں تنظیم کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید اور تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ سمیت دیگر کئی سیاسی کارکنان شامل ہیں اور شبیر بلوچ کی طویل المدتی جبری گمشدگی اسی سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ جبکہ بلوچ طالبعلم آئے روز ریاستی عتاب کا شکار ہورہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں طالبعلم دہائیوں سے ریاستی اذیت گاہوں میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کے علمبردار سمیت عالمی امن عامہ کے ادارے خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہیں چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف ریاست کو کٹہرے میں لا کر جواب طلب کرتے لیکن ایسے موقع پر خاموشی کا لبادہ اوڑھنا جبر تسلسل کو ایندھن مہیا کرنے کے مترادف ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا کہ ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ شبیر بلوچ سمیت دیگر سیاسی اسیران کے حوالے سے ریاست کو کٹہرے میں لا کر جواب طلب کیا جائے اور اسیران کو جلد از جلد منظر عام پر لانے کےلیے پاکستان پر زور دیا جائے تاکہ لاپتہ افراد اور ان کے خاندان اس ناختم ہونے والے اذیت سے چھٹکارا پا سکیں اور ہم تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں شبیر بلوچ کی خاندان کی جانب سے ہونے والے احتجاج کی مکمل حمایت کریں اور اس احتجاج میں شامل ہوکر جبری گمشدگیوں کے خلاف یکجاہ و یک آواز ہوکر جدوجہد کیا جائے۔