سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 50 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

210

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

اگلے دن بندرگاہ کا ایک افسر، داؤد بلوچ ہمیں پورٹ میں گھما رہا تھا۔ جب ہم چینیوں کے رہائشی/دفتری علاقے سے گزر رہے تھے تو وہاں مجھے دیوار پر ایک چینی کہاوت (انگریزی میں ترجمہ شدہ) بہت ہی موٹے الفاظ میں لکھی نظر آئی۔ میں نے وہ فقرہ پڑھا، اور جیئند خان، ضیا شفیع اور داؤد بلوچ کے لیے دوبارہ اُسے زور زورسے پڑھا۔ اس سے ہمیں چین کی آج کی صورت حال، گوادر پر اُس کی مہربانی، اور پاکستان کے ساتھ اُس کی گہری دوستی کا سارا فلسفہ پہلے سے زیادہ شفاف اور وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آگیا۔ فقرہ تھا: ”پیسے کے بغیر آدمی اُس کمان کی طرح ہے جو تیر کے بغیر ہو“۔

ہت تیرے کی!۔ اب میں سمجھا ہوں تیرے رخسار پہ تل کا مقصد۔اچھا!!! یہ تم اپنے کمان کے لیے تیر کی تلاش میں ہو۔ اُس ٹرک سے بھی بدتر جس کے پیچھے لکھا ہے؛ ”ڈالر کی تلاش، لوڈ کی پرواہ نہیں“۔ پیسہ جس کسی کا بھی زندگی کا مقصد ٹھہرا، زمانے نے اُسے انسانی شرف اور عزت مندی سے دور دیکھا۔

میں دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ آج کے چین کو سمجھنے کے لیے امریکی ”کاؤ بوائے“ سلسلے کی دو چار فلمیں دیکھیں، انہیں ”سونا اور سفاکیت“ کی جوڑی سمجھ میں آئے گی۔

بھئی، کپٹلزم اخلاقیات پہ زیادہ بھروسہ نہیں کرتا۔ دوستیاں اور وفاداریاں، منافع خوری میں کسی کام نہیں آتیں۔ چین ”پیسہ ازم“ کی طرف رواں دواں ملک ہے۔ ہمارے کچھ احباب ابھی تک پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی والی چینی روسی جھگڑے کے نفتھالین بھرے آکسیجن سیلنڈر میں جی رہے ہیں۔ اُن کے پیشِ نظر راہداریوں کے نام پہ انفراسٹرکچر کی فوری معاشی، کلچرل اور سیاسی قیمت ہے ہی نہیں۔ ذہنی طور پر پرانے زمانے کے اِن دوستوں سے کیا مباحثہ، ہمیں تو تیر اور کمان کی بات پہ غور کرنا ہے۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے انفراسٹرکچر پر اس قدر اضافی پیسہ لگانے سے چین کی کم زور ہوتی معیشت کو مدد ملے گی۔ اس کی کمپنیوں کو زبردست اور دیر پا منافع ملے گا۔ اُسے اپنے زرمبادلہ ذخائر اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔

اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ چین گلف کے تیل کو خلیج ملا کا کے ذریعے اپنے بحرالکاہل کے ساحل تک لے جاتا ہے۔ چین، پُر خطر ”ملا کا خلیج“ پر انحصار کو ختم کرنا چاہتا ہے، اس لیے کہ اِن جزائر پر بہت جھگڑا رہتا ہے۔ دراصل چین، عرب خلیجی ممالک کے تیل اور توانائی کو مغربی چین تک لے جانا چاہتا ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ چین عرب خلیج کے ذریعے گوادر تک آئے۔ اس کی اس اہم خواہش کا جواب گوادر کے پاس ہے۔ گوادر گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے بطور بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ یہ قریب ترین روٹ مہیا کرتا ہے اور یہ بندرگاہ ہر موسم اور پورا سال چلنے والی ہے۔ گوادر کو سڑک اور ریل کے ذریعے پاکستان کے شمال میں قراقرم شاہراہ سے ملایا جائے۔ یہ روٹ اُسے ملا کا روٹ سے بہت نزدیک پڑتا ہے۔ خلیجی عرب دنیا سے تیل سیدھا، توانائی کے لیے بھوکے اندرونِ چین۔

تو دوستو! یہ صرف پوٹھوہار نہیں جسے گرم پانیوں کی تلاش ہے بلکہ یہ تو پیکنگ بھی ہے جسے راہوں کو مختصر کرنے والا پانی چاہیے۔ اِس بین الاقوامی اور قریب تر روٹ نے چین کی کپٹلزم کی خدمت میں دینے کی آرزو کو تکمیل بخشنا ہے۔ چین‘ گوادر سے کاشغر تک اپنا مال لانا لے جانا چاہتا ہے۔ بارہ ہزار میل کا فاصلہ کم ہوکر 2395 کلومیٹر رہ جائے گا۔

اِس کے علاوہ چین کا مغربی علاقہ پسماندہ ہے۔ اس نے اسے ”ترقی“ وغیرہ دینا ہے۔ گوادر اُس کے لیے تو یوں گیم چینجر ہے کہ اس کی مسافت کم ہوجائے گی، ہمارے لیے اس لیے گیم چینجر ہے کہ یہاں ہماری شناخت، ملکیت اور اقتدار اعلیٰ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور، ایک مدہم و موہوم و غیر یقینی ہماری قومی بصیرت کی آنتڑیاں اکھاڑتی رہے گی۔

لہٰذا ہمیں چین کی شرافت معلوم ہونی چاہیے۔ ہمالیہ سے اونچا یہ دوست تو سمندر کی گہرائی سے ہماری ہڈیاں تک نکال لے جانے کو کدالیں بیلچے لیے آن موجود ہوا۔ چین کے ساتھ جو نظریاتی رشتے تھے وہ اُس دِن بخارات بنے جس دن سے اس نے سوشلزم سے بے اعتنائی برتنا شروع کردی اور سرمایہ داری کی مکھیوں مچھروں کی آمد کے لیے کھڑکیوں کی جالیاں اکھاڑ پھینکیں۔ اب وہ بلوچ عوام کو مدد دینے نہیں بلکہ ہم غریب لوگوں کا پیٹ چیر کر اپنی تجوریاں بھرنے آتا ہے۔ یہ گوادر، یہ کوسٹل ہائی وے، یہ رنگینیاں، یہ چِینیاں بے چَینیاں، یہ وفود یہ دورے، یہ چکا چوند، یہ دبئی گیریاں ہمارے وقار اور ہمارے خزانوں کا دوپٹہ نچوڑ ڈالنے کے لیے ہیں۔

کون کہتا ہے کہ گوادر نہ بنے، اس کا پورٹ نہ بنے، اُس کی بے مثال ترقی نہ ہو۔ مگر بیل کے مالک سے یہ پوچھنا ضروری ہوتا ہے ناں کہ وہ اپنے بیل کو ہل چلانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ذبح کرنے کے لیے۔

اِدھر دوسری مصیبت یہ ہے کہ بلوچستان ایسا نازک ہے جیسے پیلوں کے درخت پہ لگا پھل جو بالکل آبلہ کی طرح ہے، ذرا ہاتھ لگا نہیں آبلہ پھٹ گیا۔ ہماری آبادی میں ایک لاکھ بھی گھس جائیں تو سمجھو بلوچ اقلیت۔ یہ احتیاط تو صرف ماں ہی کرسکتی ہے، تاجر ایسی ناز برداریاں کہاں کرتا ہے۔ دکان اور بلوچستان کبھی دوست نہیں بن سکتے۔

اُس روز میں نے آس پاس نظریں گھما کر دیکھا، اِس سمندر کن (بمشابہ گورکن) کے گینتی بیلچے کی حفاظت کو لوگ موجود تھے!۔

گوادر ایک مستقبل بدبختی ہے اور بدبختی کا منیجر…… اور ہیڈ ماسٹر تو سب سے بڑا بدبخت ہوتا ہے۔ جس نے چارج میں یہ بدبختی لی، وہ برباد ہوا۔ یہ بدبختی پیدائشی طور پر بلوچ کے ساتھ تو ہے ہی، مگر جس بھی خارجی نے اس کی چمک دمک کا دھوکہ کھایا وہ دوبارہ پیروں پہ کھڑا نہ ہوا۔ ایسا زندہ کیکڑوں بھرا نوالہ جو کھانے والے کے گلے میں اپنے کانٹوں نوکوں سے بری طرح چپک جائے۔ نہ نگلا جائے نہ اُگلا جائے۔ مرگ تک۔

ہم سیاہیں ڈِک (سیندک) میں چینیوں کے ہاتھ بلوچ کا لُٹنا دیکھ چکے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سام راج (جو کہ سرمایہ داری نظام کی معراج کا نام ہے) جب کسی سونا چاندی والی جگہ سے واپس جاتا ہے تو پیچھے نہ سونا بچتا ہے اور نہ کاپر۔ بس انسانی آہوں، پشیمانیوں اور احساسِ شکست کے کھنڈرات چھوڑ جاتا ہے۔

گوادر کی ”ترقی، تنزلی“ کا تھرمامیٹر تو پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ یہاں تو جب گوادر بے چارہ خود بھی دوسروں کی وجہ سے ناچ رہا ہے تو اُس کے ”پراپرٹی“ کے ڈیلروں کوبھی ناچنا ہوگا۔ پراپرٹی ڈیلرز کبھی تُو تُو بجاتے آتے ہیں کبھی بَین کرتے جاتے ہیں۔ اور یہ پراپرٹی ڈیلر ہیں کون؟۔ ڈیلر ہیں یار۔ پراپرٹی کی صورت کچھ بھی ہو۔ سوات اور پھجے کے پائے کے بیچ ڈیلنگ ہو یا بحریہ ٹاؤن اور بل نگوئر کے بیچ۔ جسمانی عصمت کی ہو یاماں زمین کی۔

چنانچہ گوادر کا ڈیلر پہلی بار جب آیا تھا تو گوادر نے اُسے امید سے کرلیا تھا۔ پھر اِدھر ُادھر کوئی سمال یا بِگ بینگ ہوا تو حمل ضائع اور وہ واپس اپنے وطن چلا گیا۔ مگر اونٹ تو دس برس پرانی چراگاہ کو بھی یاد کرکے رسیاں تڑوا کر وہاں جاتا ہے۔ ڈیلر بھی ایسا ہی ہے۔ پیسہ اُسے کھینچے ہے تو گوادر دھکیلے۔ پیشہ وروں کا بھی اعتماد ہوتا ہے۔ ”اُن“ کا بھی اعتماد بحال یا ٹوٹ سکتا ہے۔ ڈیلر اپنے پیسہ کی تولید درتولید کی خاطر ملک و قوم کی خیر و برکت کو، لائی گیشن کا آپریشن کرنے کو ہمہ وقت تیاررہتا ہے۔

بہر کیف چین کی راہداری کی نئی کروٹ کے ساتھ ڈیلر پھر واپس آنے لگے ہیں۔ کبھی کبھی ”راہداری“ لفظ کے پرانے معانی کو نئے میں ڈھلتے ہوئے عجب محسوس ہوتا ہے۔ راہ، راہ داری، سپردگی، خود سپردگی………… کیا کیا لفظ ہیں ڈکشنری میں۔

پھر یہ ڈیلر خود کچھ بھی نہیں ہیں جب تک لینڈریونیو میں موجود کوئی ” بُڑھیا“ ان کی راہ ہم وار نہ کرے۔ اور ”بڑھیاؤں“ کے ہاتھ تو اس قدر لمبے ہوتے ہیں کہ گوادر سے سول سیکریٹریٹ کوئٹہ اور فلاں حتمی سیکریٹریٹ تک ایک پوری زنجیر ہوتی ہے۔ ہائے رے کارل مارکس، تمہیں بھی تب مرنا تھا جب گوادر کی ”گاہ“ا بھی جُتی نہ تھی۔ارے یہ منڈی تو ابھی سجی ہے۔ خوشبو، بوتلیں، دھوتی ٹائی، کٹورے، کوٹھا، جھنجنے، حقہ، تاپ، تھاپ، نغمہ، آواز، لکھنؤ…………۔

گوادر بلوچستان نہیں، پلاٹستان ہے۔ گوادر میں پلاٹ انڈے دیتا ہے۔ ہم آپ تصور تک نہیں کرسکتے کہ ارزاں فروشی کسے کہتے ہیں۔ ہم مڈل کلاس پارٹیوں کو سمجھاتے سمجھاتے عمر بتا چکے ہیں کہ ”رموزِ سرکار سرداراں می دانند!! سائیں“۔ اور سردار وزرائے اعلیٰ کے فیصلے تم مخلوط و رنگ برنگی بیساکھیوں کے مڈل کلاسیے کہاں Undoکرسکتے ہو۔ قاری، کیا آپ کو پتہ ہے کہ گوادر ایئر پورٹ کے لیے جو زمین گئی وہ لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے رقبے سے دوگنی ہے؟۔…………گوادر اور ہیتھرو!۔ چنانچہ سب کچھ پلاٹستان قائم کرنا ہے۔ نقلی میگا، نقلی پراجیکٹس، نقلی شوشا۔ بس پلاٹ اصلی۔

زمینوں پر قبضے کرنے، خریدنے اور الاٹ کرنے کے تماشے تو ہم سب کے دیکھے ہوئے ہیں۔ مگر اصل  بات تو چین اور گوادر کا ہے۔ معاہدوں اور معاہدوں کے بیچ چپکے چپکے سے کیے گئے اضافوں، ترمیموں، تحریفوں پر مشتمل دستاویزات کی بھرمار ہوتی رہی ہے یہاں۔ یہ باہمی بات یک طرفہ بات ہے۔ یہ تو گوادر کو کاٹن پیک کرکے چین کے حوالے کرنے کی بات ہے۔ گوادر ”پاک چین دوستی“ کا سب سے بڑا شکار ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔