سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 46 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

484

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | اورماڑہ اور پسنی کے بیچ

مبارک قاضی پسنی میں بارہ دسمبر 1955ء کوکہدا امان اللہ کے ہاں پیدا ہوا۔ پسنی ہی میں دس جماعت تک پڑھا۔ 1976 ء میں وہ کراچی سندھ مسلم کالج میں داخل ہوا۔ مگر وہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور واپس پسنی میں دکانداری کرنے لگا۔ کراچی سے پرائیویٹ ایف اے کرلیا اور اُردو آرٹس کالج میں بی اے کرنے داخل ہوا۔ 1983ء میں بی اے کرکے بلوچستان یونیورسٹی سےIR پاس کیا 1986ء میں۔ پسنی چلا گیا اور فش ہاربر کا ڈائریکٹر بنا۔ بنیادی طور پر اس نے اپنی شاعری کا آغاز 1976ء میں کیا جو ہنوز جاری ہے۔ کیا خوب صورت شاعری کرتا ہے۔ سامراج کے خلاف، سردار کے خلاف، فیوڈل و مارشل لا کے خلاف، رجعت و قدامت پرستی کے خلاف، نا انصافی و امتیاز کے خلاف۔

ہون تنگ ایت او پشو مان نہ بیت اے مولا
آدمی ذاتئے سرا چونیں زوالے آتکگ!

ذرا دیکھیے افغانستان کے تناظر میں وہ گوادر کے کوہِ باتیل کو کس طرح سراہتا ہے:
کوئی زلزلہ کسی روز تھا
تہہ و بالا منظرِ کوہ تھا
جو نشان تھا، وہی مٹ گیا
جو گمان تھا، وہ بھی مٹ گیا
یہ کھلوناسا میرا دل کہیں
اس شکست و ریخت میں گم ہوا
میں تلاش بھی نہ کرسکا
خط تعزیت میرے دل کہ اب
کوئی آئینہ ہی نہیں بچا
نہ ہی التفاتِ زروفا
پہ جو دست بدست ہے اسلحہ
یہ مراد تو نہیں خاک کی
نہ اندوختہ کسی آگ کی
ابھی خانہ سوزی روا نہیں
نہ خریدار راکھ دعاؤں کی
کہ میرا خدا!
رکھے بد نظر سے امان میں
یہ گوادر دل آشنا

وہ شاید (بزرگوں میں سے) بلوچی زبان کا اولین شاعر ہے، جو انفارمیشن ٹکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ ٹوئٹر پر ایک ایک شعر کرکے ساری غزل بھیجتا ہے۔

اور کون کہتا ہے کہ وہ میدانی فیوڈل نستعلیقیت پہ چلتا ہے؟۔ ارے وہ تو جوتی کی نوک پر لکھتا ہے جاگیرداری کلچر سے۔ عام گلی کی، عام مکرانی کی زبان استعمال کرتا ہے۔ وہ سنا کر چلا جاتا ہے، دیمک زدہ اذہان سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اخلاق زدہ زبان استعمال کرنے میں قاضی نے کہاں کہاں جھول دکھایا۔ لگتا ہے شعر شناسی کے دعوے داروں کو شعر کے اوزان و فریم میں عام گلی والی بولی کی شمولیت بہت نا گوار گزرتی ہے۔

گُرانڈ دِرِک یعنی کہکشاں نے اچھی جوانی (فش ہاربر میں گریڈ19 کی افسری) سے بھرپور اِس حافظ ِ قرآن کو شاعری کی صلاحیت سے نوازا ہوا تھا۔ زرنوشت (1990ء)، شاک مں سبزیں ساوڑا، منی عہدئے غمئے قصہ، اور، حانی منی ماتیں وطن، اُس کے مجموعہ ہائے کلام ہیں۔ اگلی کتاب کا نام ہے: ”چولاں دریا یل داتگ“(2012ء)۔

یہ بہت دلچسپ ہے کہ قاضی دریا (سمندر) اوڑھتا ہے، بچھاتا ہے، اور سمندرکے ساتھ ہی رہتا ہے۔ وہ اُس کے ساتھ مذاق کرتا ہے، ہنستا ہے، پیتا ہے، اور اُسی کے گلے لگ کر روتا ہے۔ پختہ پکا ناتا، جنم جنم کا ناتا۔

وہ اپنی سنجیدہ، اور منجمد ذہنوں کی پرتیں وا کرنے والی شاعری کی مطابقت میں بولنے اور چلنے کی پاداش میں 1981 میں ایک سال مچ جیل بھگت چکا ہے۔ پھر 2006ء میں اس تسلسل کے ارتکاب میں چھ ماہ تربت جیل میں رہا۔ اس پر دو دفعہ جان لیوا حملے ہوئے۔ 2013ء میں گھر پہ گرینیڈ حملہ ہوا، گھر تباہ، بیوی سخت زخمی۔ چھ ماہ بعد 2014ء میں دوسرا حملہ۔

الزامات؟………… بغاوت!!
کیا لوگ ہیں یہ ہمارے گل خان، عطا شاد اور مبارک قاضی!!

چشیں قاضی یے کہ مبارک انت پدا
مشکل انت کہ ودی بہ بیت

ہم گلیوں بازاروں کے جھروکوں سے سمندر سے آنکھ مٹکائیاں کرتے اپنے جواں مرگ اور بہت ہی پیارے شہید شاگرد کے ”بڈھے بلوچ“ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے۔ بھئی اپنے سٹوڈنٹس بہت پیارے لگتے ہیں۔

قاضی کے دو ہی بچے تھے۔ ایک میرا محبوب شاگرد قمبر، اور دوسری بیٹی۔ اور یہ قمبر عام سٹوڈنٹ نہ تھا۔ اُسے تو باپ نے کالج بھیجا ہی اُس وقت تھا، جب فون کرکے مجھے اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ اور وہ تھا بھی بہت فرماں بردار، پرکشش، شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا۔ لیڈری والی روایتی گردن اکڑائی اُس میں تھی ہی نہیں۔ ہمارا بہت اچھا، بہت ہی برخوردار اور بہت ہی تخلیقی شاگرد۔ پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کب سیاست کے کوہستانی مکتبِ فکر میں جاشامل ہوا۔

مگر اب یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ قمبر اب میرے ادارے میں زیر تعلیم نہ تھا، وہ کب کا فارغ ہوکر چلا گیا تھا۔ دور دراز بلوچستان میں فاصلے دور ہیں، روابط نہیں ہیں…………۔ اور پھر خبر آتی ہے کہ فلاں شاگرد روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوا، فلاں بیمار ہوکر، یا فلاں مسخ شدگی میں زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا ………… بس کسی کی شکل یاد رہتی ہے، کسی کی کوئی بات یا کوئی تحریر۔ ٹیچر سپیزنڈ پہ لگا سنگِ میل نہیں ہوتا، بلکہ گوشت پوست سے بنا ایسا انسان ہے جسے اپنے شاگردوں کے دکھ سکھ متاثر کرتے ہیں۔ وہ جو اپنے شاگردوں کی زندگی پر، اُن کے مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے تو اُس کے لیے واحد شرط ہی یہ ہے کہ وہ اُن اُن کے غم سکھ میں شریک بھی رہتا ہے۔

قدم بھی عجب مظہر ہوتا ہے۔ پل کو شیطانی پل کو رحمانی، پل کو حاسد پل کو مقدس۔ اب ہمارے قدم خود بخود تقدس کے موزے اوڑھ چکے تھے۔ ہم شہید کے بیت ِ اقدس کے دروازے پہ جوتھے۔ شہید کا روحانی باپ، بلوچستان بھر کا فاصلہ طے کرکے اُس کے طبعی باپ سے تعزیت کے لیے آیا تھا۔

ہم گلے ملے۔ میں نے اپنے اِس ہم زاد سے اتنا ہی کہا کہ ”ہم کچھ نہیں بولیں گے“۔ مجھے معلوم تھا کہ بولنا کبھی کبھی اَن کہی کی گراں قدری کو کم کردیتا ہے۔ لہٰذا ہم مرکزِ ثقل کی بڑی تصویر کے نیچے بیٹھے صاحب ِتصویر اور قدرِ مشترک کے بارے میں کچھ نہ بولے، ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ بھی نہ اٹھائے۔ کچھ رسوم، تو، رواج سے بالا تر ہوتے ہیں ناں!۔ لہٰذا ہم نے کچھ بھی نہ کہا، ہم نے کچھ بھی نہ کیا۔ اور شاید، ہم بہت کچھ کہہ اور سمجھ گئے۔ بلوچ معاشرے میں طرفین کا سببِ آمد واضح ہوتا ہے۔

کسی کے زخموں کو کھرچنے سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟۔ مگر مبارک قاضی تو گوشت پوست کا نہیں ہے۔

قاضی سراپا درد ہے، درد کے خمار میں مخمور۔ درد باہر ہو تو باطن میں بھی طوفان برپا کردیتا ہے، مگر اندر ہو تو باہری موسم کے تیور اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

دکھ سکھ تو باریاں بدلتے رہتے ہیں۔ کون بنی آدم ہے جسے دکھ کا تلخ ترین ذائقہ چکھنا نہ پڑا ہو۔ قاضی شاید بہادر ترین باپ ہو، یا، شہید بچے باپ کو مضبوط بناتے ہیں؟۔ قاضی سے دل کو شکنجے میں کسنے والا دکھ اُس وقت آٹکرایا جب وہ اُس کے اپنے چل چلاؤ کا وقت تھا۔ کچھ لوگوں کو البتہ بالکل الٹا تجربہ ہوتا ہے۔ قاضی ساٹھ سال پہ کمرشکن چوٹ کھا گیا، ہم چھٹی جماعت میں ہی سایہ سے محروم کردیے گئے تھے۔ وہ تقدس کا بار اٹھانے کو زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے گا، ہم ذاتی حساب چکانے کی صورت سماج کو بہت کچھ دینے کو لڑکپن اور جوانی رینگ کر ساٹھ سال گزار چکے ہیں………… پتہ نہیں کس کا دکھ بڑا ہے۔ شاید قاضی کا کہ بڑھاپے میں صرف بیماریوں کے خلاف ہی مدافعت کم نہیں ہوتی بلکہ دکھ کے خلاف بھی امیونٹی گھٹ جاتی ہے۔ اور وہ بھی جب بچپن کی نسبت بڑھاپے میں دکھ کا شعور بھرپور ہوتا ہے۔ اور مفلس کی قبا کی طرح دکھ ایک ایک کرکے اس کا پیوند بنتے جاتے ہیں۔

وہ زمانہ بہت پرے ہے جب دکھ کی گہرائی گیرائی کے ٹورنامنٹ کبھی منعقد نہیں ہوں گے، یہ تو ہمارے فیوڈل اور ماقبل فیوڈل طبقاتی سماج ہیں جو دشمن کو خود سے بڑا درد پہنچانے کو اکساتے رہتے ہیں۔

سنجیدگی، سنگینی کی اس نشست میں اُس نے بس اتنا کہا کہ میری تو خواہش تھی کہ وہ دوائیوں سے انسانوں کی خدمت کرے مگر اُس نے انسانوں کی خدمت کی یہ راہ چنی، میں راضی بہ رضا۔…………آہ!!

میں تو کوئٹہ سے موضوع اُس کے حوالے نہیں کرنے دینے کا فیصلہ کرکے چلا تھا۔ میں موضوع کو یہاں بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا تھا۔ باطن کو ہلا ڈالنے والی قاضی کی شاعری کی تازہ کتاب چھپی تھی۔ اس پہ وزیراعلیٰ مالک بلوچ کی طرف سے ”مالی امداد سے چھپنے کا فقرہ“ لکھا تھا۔ قاضی نے مدافعتی بات چھیڑ دی۔ میں نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا: ”قاضی تم کئی چیزوں سے بالاتر ہو۔ چھوٹی چیزوں پر صفائیاں دیتے رہنا ہم جیسے چھوٹے لوگوں کا کام ہے“۔

کسی کے پُرسے پر ہونے والی گفتگو سے زیادہ بکواس، روایتی اور ہر طرح کی جدت و اضافہ و ترمیم سے مبرا گفتگو دنیا میں موجود نہیں۔ ناقابلِ منسوخ اور اعصاب شل کر ڈالنے والے نقصان پہ مالک سے کیا لفاظی کی جاسکتی ہے۔ فرار ڈھونڈنے، میں قاضی کے داماد رستم کے ننھے سہراب کو گود میں لیے کتاب، شاعری کے استفسار و معلومات کی جگالی کرتے، سپیس اور ٹائم کے باہمی تعلق کو گہرائی تک محسوس کرتے، بالآخر ٹوٹی کمر کے بڈھے کے دُکھستان سے نکل پڑا۔ ٹائم‘ سپیس کا بھٹہ بٹھا دیتا ہے۔ عام حالات ہوتے تو میں کہہ رہا ہوتا:
حیف درچشم زدن صحبتِ یار آخر شد
روئے گُل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد

مگر آج میرے پاس لفظ نہ تھے، اور وہ بھرا بیٹھا تھا۔ زبان اور آنکھوں سے چھلک چھلک جاتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ کور بہادر قبرستان کی دنیا میں بالکل بھی نہیں رہے گا۔ مجھے یقین تھا کہ اُسے اپنی آنکھ، جگر، اکلوتا بیٹا بھولے گا بھی نہیں مگر وہ اُس کے ساتھ مرے گا بھی نہیں۔ زندہ شاعر زندگی کی باتیں کرے گا، زندگی کو باشرف اور شریف بنانے کی باتیں، روشن تر کرنے کی باتیں، سہل تر بنانے کی باتیں۔ مگر ایسے میں اپنے کسی قریبی آدمی کے ساتھ رونے کی خواہش تو ہوتی ہی ہے ناں!۔ سانحہ کی باتیں، اندھیر برپا ہونے والی ساعت کی باتیں ………… ہم ایسا موقع دینا نہیں چاہتے تھے، لہٰذا ہم بھاگ کھڑے ہوئے اور قاضی کا اپنے اکلوتے اور نوجوان لخت جگر کے لیے کہا ہوا مرثیہ ہمارا پیچھا کر رہا تھا:
برے برے ابیتک باں
زہیر کہ جنت مناں
سُچنت دل و جگر منی
کفاں میں ترانگا تئی
تو گیرہ کایئے بے کساس
تادل منی حیال کنت
وتاگوں گپ و گال کنت
او چو گُشیت
”ترا غریبیں شوانگے مناں خدا نل ئے بکنت“
****

بدوک میں ایک دلچسپ چیز دیکھی۔ وہاں ملیشیا کی چیک پوسٹ ہے۔ آس پاس بلوچستان ہے ………… ذو معنویت مت تلاش کیجیے، مطلب ہے کہ آس پاس کوئی آبادی، کوئی بستی گاؤں وغیرہ نہیں ہے۔ مگر پھر بھی وہاں عصر کی اذان بہت زوردار لاؤڈ سپیکر پر دی جارہی تھی۔ آواز میں البتہ مؤذن، عمر خیام کا بیان کردہ جیسا، تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔