اپنے شیروں کومارکر غیرکےکُتّوں کا خوراک بننا بند کیجئے – شفیق الرحمٰن ساسولی

774

“اپنے شیروں کومارکر غیرکےکُتّوں کا خوراک بننا بند کیجئے۔ “

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

کیسا المیہ ہیکہ بلوچ پر مسلّط کردہ مظالم پر بولنے، لکھنے اور ہرمحاذ پر احتجاج کرنے کے باوجود کوئی خاطرخواہ نتیجہ بھی نہیں اور ظلم ڈھانے والے پشیمانی تک محسوس نہیں کرتے، حتّیٰ کہ آج دن تک ڈھٹائی کےساتھ ہماری استحصال میں مشغول ہیں۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں بس دو مقولوں سے سمجھا جاسکتاہے کہ دشمن کی حکمت عملی: ” تقسیم کرو اور حکومت کرو”۔ اور ظالم سے ہماری وفاداری کا نتیجہ: “اپنے گھرکے شیر کو مت مارو ورنہ گلی کے کتّے تمہیں نوچ کھائیں گے”۔

قارئین! جب نوروزخان اور اس کے ساتھیوں پر قیامت ڈھادی گئی تو ہم پہلےکی طرح ایک بارپھر تقسیم ہوئے۔ کچھ نے ظلم کے خلاف آواز اٹھایا اور کچھ لوگ منہ میٹھا کرنے ظلم ڈھانے والوں کے گود میں جابیٹھے۔

جب ستّر کی دہائی میں حقیقی بلوچ رہنماوں کیخلاف بےجا کاروائیاں کی گئیں تو ہمارے بلوچستان سے کچھ لوگ کچھ کی نظر میں غدّار ٹہرے باقی فرزندانِ بلوچستان اپنوں کے گرنے پر شہنائیاں بجاتے رہے۔

جب اکبر بگٹی شہید کئےگئےتو قاتلوں کی ترجمانی کے فرائض بھی یہی سے نبھایاگیا اور جنہوں نے آوازِحق بلند کی وہ غدّار ٹہرے۔
جب بلوچستان کے ہر شہر میں دن دیہاڑے شہریوں کو قتل کیاجاتا رہا نوجوان، بوڑھے اور خواتین اغواء ہوتے رہے، ان کارستانیوں میں ملزموں کا ساتھ دینے والےبھی ہمارے شہزادے اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مشکلات سہنے والے بھی ہمارے۔

جب چھوٹی بچی نازبی بی اور معصوم اسمہ جیسی سینکڑوں کی شہادت ہوتی ہے، تربت میں نوجوان حیات کو شہید کیاجاتاہے،اسی طرح ہر دن بےشمار گھروں کو جلاکر بے گھر کیاجاتا ہے تو قاتل کی دفاع بھی مقتولین کے قبائل سے ہی کروایاجاتاہے۔

بہت سے تلخ حقائق میں سے چند ایک کو اس طرح بیان کرنے کامقصدیہ نہیں کہ یہاں جرأتمندوں کی کمی ہے یا بلوچ دھرتی بانجھ ہوچکی ہے۔ میں مانتاہوں کہ یہاں صفِ اوّل کے سیاست دان اور نڈر ورکرز موجود ہیں، جو واضح اور ابہام سے پاک بغیرکسی تردّد کے ظالم کو کھری کھری سناتے ہیں۔ جو بغیرمداہنت اور نپے تلے الفاظ کے بغیر تلخ حقائق سے کسی بھی فورم پر بیانیہ دے سکتے ہیں۔ مگر چند ایک کی جرأت کے مقابلے میں جو ہمارے ہزاروں شہزادے غلامی کاطوق لئے مظلوموں پر ظلم کو جائز قرار دینے میں لگے رہتے ہیں اصل مسائل کےجڑ وہی ہیں۔

زیادہ دور نہیں، بطورِمثال حال کا ایک جائزہ لیتے ہیں کہ ہم جرأت مندوں کا کتناساتھ دیتے ہیں یا ان کی طرح جرأت کرتے ہیں۔ ‘2018ء کے انتخابات میں کوئی ایک ممبر جیت کرجب قومی اسمبلی میں حلف لیتاہے تواس وقت یا بعد میں اسمبلی فلورپر جوجملے انہوں نےاستعمال کی وہ ہرایک کی نوکِ زباں پر ہوتے توہیں ‘ مگر اس کے سوا کون ہے جو مجرموں کے چہروں سے نقاب اٹھاکر کھری کھری سنائے؟ کون ہے جو بلوچستان پر مظالم کی پوری داستان سنائے اور ہر چہرے سے نقاب الٹتارہے؟ کس میں ایسی ہمت ہے کہ میدان میں نکل کر اس کی طرح دو ٹوک الفاظ میں بات کرے؟

ہمارے دوسرے بلوچ سیاستدان کیوں نہیں بولتے؟ اس مردِ حُر کاساتھ ہی نہ سہی، ان کےجیسا جرأت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟ دوسروں کا ہرجملہ مبہم کیوں ہوتاہے؟ ہر بیانیہ ادھوری کیوں ہوتی ہے؟ اے کاش! اس نڈر جیسا کوئی اور جرأت دکھاتا۔ ماماقدیربلوچ، فرزانہ مجید، سیمابلوچ، سُمّی بلوچ، حوران بلوچ، حسیبہ قمبرانی، ماہ رنگ اور شہید حیات بلوچ کے والد مرزابلوچ جیسے ہزاروں باپ کے دکھوں کا مداوا بننے کی کوشش کرتا۔

میں جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے مردِقلندروں نے قلندرانہ جرأت کی بھاری قیمت بھی اداکی ہیں اور کرنے کو بھی تیارہونگے۔ ان سب کے باوجود بلوچستان اور مظلوم بلوچوں کی خاطر ان کی جرأت ارزاں نہیں ہوتی کیوں کہ وہ جانتے ہیں زندگی کے چند گنی چنی ساعتوں کے سوا، کھونے کو کچھ بچاہی نہیں؟ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے لوگ شہید ہوچکے، ہزاروں بیٹے لاپتہ ہیں۔ ایسے لیڈرز ہیں کہ ظلم کے خلاف جُھکنے کو تیار نہیں، بوٹ تلے وزارت و مراعات کو قبول نہیں کرتے اور امید ہیکہ آئندہ بھی کسی بےشرف کچہری میں دعوت قبول نہیں کریں گے۔

یہ صرف سیاستدان نہیں، خود ایک تاریخ اور ایک عظیم تاریخ کے وارث ہوتےہیں۔ وہ اصولی اور شعوری سیاست کرتے ہیں۔ وہ ایسے سیاسی روایت کے وارث ہوتےہیںجن کے خون میں حُرّیت پسندی ازل سے شامل ہوتی ہے۔ وہ شفاف سیاست کرتے ہیں، سیاسی دروازہ کھلا رکھنے کا قائل ہوتے ہیں مگر کسی کی غلامی ہرگز قبول نہیں کرتے۔ کوئی حادثاتی سیاستدان نہیں ہوتے بلکہ ان کے جرأت و کردار نےانہیں مایہ ناز لیڈر بنایاہوتا ہے اور خواہش ہیکہ ہمارا ہر سیاستدان جرأت و کردار سے ہمارے ان عظیم لیڈران کا ہم پلّہ بن جائیں۔

بلوچستان مظالم کی چکی میں پِس رہاہے، بلوچ بیٹیاں سڑکوں پہ بیٹھے مظلومیت کی علامت ہیں۔ پیرمرد لاپتہ بیٹوں کے غم کا بوجھ اٹھانے سے تھک چکے ہیں، اب حالات سے واضح ہیکہ خون آشام دھرتی کے باسی تھک ہارچکے ہیں، مزید استحصال اور مظالم کو سہنے کامتحمّل بھی نہیں،

بلوچ سیاستدانو! جب آپ سب جرأت کامظاہرہ کرکے ظالم کو للکاروگے یقیناً وہ تمہارے سیاسی دھاڑ کو برداشت نہیں کرسکےگا، بس صرف اور صرف جرأت چاہیئے۔ اب تمام بلوچ سیاستدانوں کو چاہیئےکہ ہمّت کامظاہرہ کرکے بلوچ قوم اور بلوچستان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کُھل کر سامنے آئیں، اکٹھ کا مظاہرہ کریں۔ یک زبان ہوکر استحصالی قوتوں کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیوں ایساکررہے ہو؟ قوم کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ کیاہورہا اور ہونے والا ہے؟

بلوچ سیاستدانو! بچے کُچھے عوام کو ذاتی مفادات کا عادی بناکر ان کے شعور پر جوحملے ہورہے ہیں وہ آپ سمیت پوری قوم کیلئے مزید پریشانی کاباعث بن سکتے ہیں۔

خدارا! ذاتی مفادات سے بالاتر، اب اکٹھے ہوکر ظالم کو مزید ظلم سے روکنے کی حکمت عملی ترتیب دیں، ظالم کو مزید استحصال سے روکنے کی کوشش کریں۔۔اور ساتھ ساتھ عوام میں گُھل مِل کر نظریہ اور شعور پر کام کریں۔ اب اپنے عوام کیلئے کام کریں اور صرف آلام و مصائب میں گِھری بلوچستان کیلئے۔۔۔۔ اور ہاں! بہت ہوگیا، اپنوں کی مخالفت بس کیجئے، اپنے شیروں کو مار کر کُتّوں کا خوراک بننا بند کیجئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔