گیارہ اگست صبح نو کی نوید – فتح بلوچ

160

گیارہ اگست صبح نو کی نوید

 تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

11اگست بلوچ قومی و سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل ایک دن ہے۔ بلوچ قوم کی عبوری آزادی کے بعد طویل غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے ایک عظیم باپ کے عظیم فرزند نے مجید اور درویش کے سنت کو زندہ رکھنے کے لیئے جس راہ کا انتخاب کیا وہ بلوچ تاریخ میں سنہرے الفاظ کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔

ریحان کی قربانی کا یہ تسلسل مائی کلاچی سے ہوتے ہوئے کوہ باتیل، پھر کلاچی سے آگے چل کر وطن کی طول و عرض میں پھیلنے کی راہ ہموار کرے گا۔

اسلم کا ریحان 11اگست کے مبارک دن کو جس شان سے قربان ہوا، وہ انمٹ نشان قوم کی رہنمائی کریں گے۔

بلوچ قومی تاریخ میں 11اگست 2018 کا دن اسی تسلسل کے ساتھ یاد رکھا جائے گا، جب طویل جدوجہد کے بعد 11اگست 1947 کو بلوچ وطن کی آزادی کو انگریز سامراج نے قبول کرلیا۔

1839سے لے کر 1947 تک انگریز قبضہ گیریت کے خلاف طویل بلوچ قومی جدوجہد کا حاصل حصول آزاد و خودمختار بلوچستان تھا۔

برٹش نو آبادیاتی تسلط کے خاتمے اور تاج برطانیہ کے انخلاء کے بعد11اگست 1947کو بلوچ ریاست کو دنیا کے نقشے میں ایک آزاد قومی ریاست کی شکل میں باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔

تاج برطانیہ کے خلاف بلوچ قوم نے طویل سیاسی، سفارتی اور مزاحمتی جدوجہد کی۔ انگریزوں کی بلوچستان میں عملداری اور اثر و رسوخ کے لئے کافی مشکلات پیدا ہوئے۔ بے شک بلوچ قوم وسائل اور فوجی حوالے سے کمزور تھے لیکن وہ فکری حوالے سے انتہائی مضبوط، سرگرم اور پرجوش تھے۔

برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ شدت کے ساتھ جاری تھی، بلوچ قوم اپنی آزاد تشخص اور شناخت کی حفاظت کے لیئے کمر بستہ تھے۔ کوہستان مری سمیت مکران، جہالاوان اور بلوچستان بھر میں انگریز قبضے کے خلاف بلوچ برسرپیکار تھے۔

برٹش توسیع پسندوں نے بلوچ جغرافیہ کو بے رحمی کے ساتھ تقسیم کرکے مشترکہ بلوچ آبادی کے درمیان خونی لکیریں کھینچ کر بلوچ قوم کو بیک وقت مختلف ممالک کے ساتھ جنگ میں دھکیل کر بلوچ قوم کی قوت کو منتشر کیا ہوا تھا لیکن بلوچ قوم اپنی جدوجہد اور کوششوں سے بلوچستان کے ایک وسیع حصے کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔

بلوچستان کی حیثیت برصغیر کے دیگر ریاستوں کی طرح نہیں بلکہ یہ ایک آزاد و خودمختار ملک بن۔ آزاد بلوچستان کی تشکیل کے بعد ہندوستان کی تقسیم اور غیر فطری ریاست پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بلوچ طاقت کے بل بوتے پر اپنی آزادی سے محروم ہوئے۔

غیر فطری ریاست پاکستان نے الحاق کے لئے بلوچ پارلیمنٹ کو ایک پیغام بھیجا جس کے رد عمل میں بلوچ کانفیڈریسی نے الحاق کے شرط کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ الحاق کی شرط ہماری آزادی اور خود مختاری کے خلاف اور 4اگست 1947کو بلوچ ریاست اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے منافی ہے۔ لیکن جناح نے ان تمام معاہدات کو روندتے ہوئے (فوجی حوالے سے کمزور) بلوچ ریاست کی آزادی پر شب خون مارا۔ بلوچ ریاست پر پاکستانی قبضے کے روز اول سے بلوچ مزاحمت نے سر اٹھایا۔

نومولود ریاست پاکستان کی بلوچ ریاست پر بزور طاقت قبضے سے پہلے خان قلات کے زیر اثر ریاستوں سے چال بازیوں، دھوکہ دہی زیر بحث نہیں)

آج 11 اگست ہے، ہر سال 11اگست کو بلوچ اپنی کھوئی ہوئی آزادی کا دن مناتے ہیں۔ لیکن پچھلے دو سالوں سے 11 اگست کی اہمیت بلوچ معاشرے میں اس لیے بڑھ گئی ہے کہ بلوچستان کی سب سے بڑے گوریلا جنگجو اسلم بلوچ المعروف استاد کے جوان سال فرزند ریحان نے بلوچستان کے مقام دالبندین میں چینی انجینئروں کے قافلے پر فدائ حملہ کرکے مجید اور درویش کے سنت کو زندہ رکھا، پھر یوں فدائین کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جو قابض کے لیے باعث پریشانی بنا ہوا ہے۔

بلوچ وطن پر قربان ہونے والے ہر فدائی کا ایک خوبصورت داستان ہے، لیکن عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے جس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کم عمری میں جو عمل کر دکھایا، اس سے مجید کے کاروان میں ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جو آزاد بلوچستان کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔