چیئرمین کی مونچھ اور واسکٹ میں مکالمہ – باسط بلوچ

662

چیئرمین کی مونچھ اور واسکٹ میں مکالمہ

تحریر: باسط بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

واسکٹ : مونچھ میاں جانتے ہو، میں چیئرمین کو کس قدر عزیز ہوں؟
مونچھ: جانتا ہوں! پر اتنا نہیں جتنا وہ میری قدر کرتے ہیں۔
(مونچھ شرماتے ہوئے، وہ تو مجھ پر فدا ہیں)
واسکٹ : واہ بھئی واہ، واہ بھئی واہ! شکل دیکھو اور نخرے دیکھو
مونچھ: جلو اور جلو سڑیل، یہ تو قدرت کا احسان ہے مجھ پر کہ مجھے چیئرمین کا مونچھ بنایا
(مونچھ اتراتے ہوئے ورنہ میں بھی کسی عام و خاص کا مونچھ ہوتا)
واسکٹ :تو میں کونسا مفت منگڑا ہوں، مجھے بھی تو جناب جی نے پورے چالیس ہزار کے آرڈر پر تیار کروایا
(واسکٹ اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھو میں کتنا چمک دار ہوں، ہائے مرے چمکتے دمکتے ہوئے شیشے)
مونچھ: بس چھوڑ بھی دو، اپنی فضول کی تعریف، دیکھا پچھلے پروگرام میں چیئرمین نے کس قدر سنوارا تھا مجھے، میرے دونوں کنارے کس قدر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔
واسکٹ: تو مجھے انھوں نے کس طرح زیب تن کیا ہوا تھا، میں بھی کس قدر دمک رہا تھا، ہائے اللہ! بس نہ پوچھو، نہ پوچھو مونچھ میاں
(واسکٹ کو ناگہانی خیال آیا، اب تو جناب جی نے پانچ اور واسکٹ خرید لیئے اللہ نہ کرے کہیں و میرا استعمال ہی نہ چھوڑدیں)

مونچھ : ارے واسکٹ میاں کن خیالوں میں کھو گئے ہو؟ خیر تو ہے؟
واسکٹ:نہیں بھئی ویسے اپنی خوبصورتی کے خیالوں میں ہی مگن ہوگیا تھا
مونچھ: اچھا یہ بتاو، اس دن فلانے کونسل چیئرمین کے مونچھ سے تو میری رعب دبدبہ زیادہ تھا نا؟!
واسکٹ: ہاں قدرے آپ کا رعب زیادہ تھا پر کم اس چیئرمین کی مونچھ بھی نہیں تھی
مونچھ: وہ تو ہے میاں واسکٹ، بھلا ایک کونسل چیئرمین کس قدر اپنے مونچھ کو نہیں پالے گا
(یہ تو مقابلہ ہی بن چکا ہے آجکل ہمارے چیئرمینوں کے درمیان)
واسکٹ :بھلا میں کس قدر لگ رہا تھا اس دن؟
مونچھ: آپ کچھ زیادہ چمک رہے تھے، ویسے باقی واسکٹوں کی چمک دمک بھی کمال تھی
واسکٹ: یہ تو ہے مونچھ میاں، ہرچیئرمین نے اپنے لیے مہنگا واسکٹ تیار کروایا ہوا ہے مقابلہ تو ہوگا ہی۔
مونچھ : چلوخیر ہم کیوں طعنہ بازی کر رہے ہیں ایک دوسرے پر اللہ ہمیں اس رعب و ناز اور اپنے چیئرمینوں کی شان بنائے رکھے
واسکٹ: آمین ! اللہ شعور و فکر جیسی بلا سے ہمیں دور رکھے
مونچھ:ارے بھئی واسکٹ یہ شعور کونسی بلا ہے بھلا؟
واسکٹ : یہ بڑی واسکٹ و مونچھ خور بلا ہے
یہ جہان جاتی پھر ہماری بقا خطرے میں پڑجاتی ہے
مونچھ: اس کا رنگ و روپ بھلا کس طرح کا ہوتا ہے، یہ کہاں اپنا آماجگاہ بناتا ہے؟
واسکٹ : رنگ و روپ تو نہیں جانتا، خیر پر سنا ہمارے اوپر بھیانک اثرات مرتب کرتی ہے
اور یہ ذہنوں میں سماجاتی ہے اور انہیں اپنا مستقل آماجگاہ بناتی ہے

مونچھ : (فوراًسے بولا) مرے پاس اس سے بچاو کا حل ہے
واسکٹ: وہ کیسے بھلا ؟ جلدی بتاو
مونچھ : میں مزید تاؤ رکھوں گا اور آپ اپنی چمک دمک مزید بڑھاو
واسکٹ: پریشانی سے تو پھر کیا ہوگا مونچھ میاں؟
مونچھ : سنا ہے شعور و فکر تاؤ دی مونچھ اور دمکتے ہوئے واسکٹوں سے دور دور رہتا ہے۔
واسکٹ :ہاں یہ تو میں نے بھی سنا ہے
مونچھ:تو پریشانی کس بات کی میں خود کو مزید تاؤ میں رکھوں گا اور تم مزید چمک سے رعب بڑھاو
واسکٹ: ھھھھ پھر تو مسئلہ ہی حل ہوگیا، چیئر مین ، چیئر مین ہی رہے گا اور ہم ویسے ہی ٹھاٹ بھاٹ سے رہیں گے
(شعور و فکر جائیں باڑ میں)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔