حیات بلوچ کوحادثاتی نہیں بلکہ نشانہ بنا کر قتل کیا گیا- خلیل بلوچ

343

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاہے کہ تربت میں فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کاقتل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ بلوچ قوم کے ساتھ بلوچستان کے طول و عرض میں ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں لیکن میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی عدم رسائی کی وجہ سے ایسے واقعات وہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوجوان محمد حیات کا قتل لرزہ خیز اور پاکستانی فوج کی درندگی و حیوانیت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ سماج کے تمام شعبوں میں لائق و قابل فراد کو ہدف بناکر قتل کر رہا ہے۔ اب تک ان گنت اساتذہ، طلبا، ڈاکٹر، انجینئر،وکلا اور دوسرے شعبوں کے قابل و لائق افراد قتل کئے جاچکے ہیں۔ حیات بلوچ کاقتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس واقعے کو مختلف رنگ اور حادثاتی قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے ہونہار اور روشن مستقبل کے نوجوان کو شناخت کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ ایک لائق اور قابل اسٹوڈنٹ ہونے کے علاوہ مختلف سماجی اور فلاحی رضاکارانہ سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ یہ یقینا پاکستان کے لئے تکلیف دہ ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا اس جدید دور میں وحشت کی ایسی مثالیں صرف داعش کے ہاں ملتی ہوں گی لیکن باقی دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے کہ والدین کی نظروں کے سامنے ایک نہتے نوجوان کو قتل کیا جائے۔ ایسا صرف پاکستانی فوج ہی کرسکتی ہے۔ درندگی کی حد یہ ہے کہ نوجوان کی چیخ سن کر والدہ انہیں بچانے کے لئے پہنچ گئیں تو ان درندوں نے بلوچ قوم سے نفرت میں حیات بلوچ کے والدہ کی سر سے دوپٹہ اتار کر اسی دوپٹے سے بیٹے کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کرگھسیٹ کر سڑک پر پھٹک دی اور والدین کی نظروں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کو والدین کے سامنے درندگی و حیوانیت سے قتل کرنا پاکستان کی بلوچ قوم کے خلاف نفرت کے انتہا کی مظہر ہے۔ ہر واقعے کے ساتھ پاکستان کی نوآبادیاتی چہرہ مزید عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل کئی نوجوانوں کو پاکستان کی درندہ فوج والدین کے سامنے گولیوں سے بھون چکا ہے۔صرف کیچ کی بات کی جائے تو دشت کروس تنک میں ملارفیق، اس سے قبل ملارفیق کے بھائی اور فوجی ٹارچر سے معذور حیات بیوس کو گھروں سے نکال کر درندہ فوج نے فائزنگ کرکے لوگوں کے سامنے شہید کردیا۔ ملارفیق کے قتل کی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔ کیچ ہی میں پارٹی کے سینئر کارکن سلیمان بلوچ کو اہلخانہ کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ ایسے واقعات سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کا قتل بلوچ نوجوانوں کے لئے کھلا پیغام ہے کہ پاکستان انہیں کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتاہے کیونکہ ہم ایک غیر فطری اور انسانی اقدارسے محروم ریاست کے کالونی ہیں۔ یہاں آئین، روایات اور قوانین کی پاسداری بلوچوں کیلئے ناپید ہیں۔ پاکستان کی نظر میں بلوچ محض غلام ہے۔ اس کی کوئی قانونی یاانسانی حقوق نہیں بلکہ پاکستان نے غلام قوم کے لیے خود چند حقوق طے کیے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا اورحتمی حق موت ہے جس کے وقت و مقام کا تعین پاکستانی فوج کے ہاتھ میں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس اختیار کو پاکستان سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوان اپنے نظروں کے سامنے ایسے ہولناک واقعات کو رونما ہوتے دیکھ کر اس امر کا ادراک کریں کہ ایک غلام قوم کے فرزند ہونے کے ناطے انہیں کیا کرنا چاہئے۔ بلوچ نوجوانو ں کو احساس کرنا چاہئے کہ تاریخ نے آپ پر بڑ ی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں نہتے مارے جانے سے بہتر ہے کہ قومی تحریک کا عملاََ حصہ بنیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں پاکستان کی شر سے محفوظ رہ سکیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا حیات بلوچ کے قتل پر ایک ایف سی اہلکار کی گرفتاری بلوچ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ریاست کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش ہے، کیونکہ ایسے جنگی جرائم سے بلوچ قوم میں پاکستان کے خلاف نفرت مزید بلندیوں پر پہنچا ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ مدتوں سے دبائی گئی بلوچ قوم ملک ناز کی شہادت کی طرح ایک بار پھر سڑکوں پر آئے گی اور ریاست کی بربریت کو دنیا کے سامنے عیاں کرے گی۔ پاکستان کے باجگزار یقینا ایک اہلکار کے گرفتاری کے ڈھکوسلے کو پاکستان کے حق میں استعمال کی کوشش کریں گے لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ یہ ایک اہلکار یا فوج کا کام نہیں بلکہ حیات بلوچ کا قاتل ریاست پاکستان ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ بلوچ قوم کی نسل کشی پر خاموشی توڑ کر آگے بڑھیں کیونکہ حیات بلوچ واحد واقعہ نہیں بلکہ شہر میں رونما ہونے کی وجہ سے اسے ریاست کے لئے چھپانا مشکل ہوگیا تھا۔ البتہ اس واقعہ سے بلوچستان میں پاکستان کی جنگی جرائم کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات روز رونما ہورہے ہیں لیکن انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی سے پاکستان کی حیوانیت اور جنگی جرائم کا ارتکاب میں اضافہ کررہاہے۔