گریشہ کی تعلیمی صورتحال – بختیار رحیم بلوچ

461

گریشہ کی تعلیمی صورتحال

بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا بھر میں تعلیمی مراکز کچھ مہینوں سے کرونا وائرس کی وجہ سے بند ہیں لیکن گریشہ کے تعلیمی مراکز گذشتہ آٹھ سالوں سے خستہ حالی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ گریشہ ضلع خضدار کا ایک پسماندہ تحصیل ہے۔ گریشہ میں انسانی آبادی بیس ہزار اور علاقے کا مکمل رقبہ ڈیڑھ سو کلو میٹر لمبا اسّی کلو میٹر چوڑا، تین یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ وہاں اس دور جدید میں پورے علاقے کے بچوں کا ایک ہائی اسکول ہے، جو سریج گریشہ میں واقع ہے، گریشہ نال کے آخری سرحد سے لے کر مشکے کے سرحدی پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔

پرائمری اسکول ہر بستی سے پندرہ بیس کلو میٹر پر واقع ہوتی ھے۔ یعنی گوراست کے پرائمری اسکول پورے گواراست کے قریبی بستیوں کے بچوں کا پرائمری اسکول ھے، دور دراز سے بچے سردی گرمی برداشت کرکے دس پندرہ کلو میٹر کے فاصلہ پر پیدل سفر کرکے گواراست میں آکر پڑھتے ہیں۔ سریج کے گرلز اور بوائز اسکول میں تیس چالیس کلو میٹر دور دراز علاقوں سے یعنی تابکو بابلی سینکری سوھرو کے طلباء گرمی سردی سہہ کر سریج میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں، اسی طرح جاوجی بدرنگ زباد کوچہ میں ایک ایک پرائمری اسکول موجود ہیں، دور دراز کے آبادی والے طلباء کو جو اسکول ایک/دو کلو میٹر قریب پڑتی ہے، وہ وہاں جاکر اپنے تعلیم کو جاری رکھتے ہیں ۔ گونی گریشہ میں ایک مڈل اسکول ہے، گونی کے قریبی علاقوں کے بچے پرائمری پڑھنے کے لئے وہاں جاتے ہیں۔ بعض علاقوں کے بچے پرائمری پاس کرنے کے بعد گونی کے مڈل اسکول میں داخلہ لے کر اپنا تعلیم مڈل تک وہاں جاری رکھتے ہیں ۔ اسی طرح گریشہ کا پورا علاقہ یعنی گری تیغاب کودہ سے لے کر باہڑی اور لوپ تک کے علاقوں میں کہیں ایک بستی پر ایک پرائمری اسکول ہے تو یہ سمجھنا چائیے وہ ارد گرد کے کم سے کم تیس /چالیس کلو میٹر دور دراز بستیوں کے طلباء کے اسکول ہیں۔ وہاں کے طالب علم ابتدائی تعلیم کو مایوسی اور تکلیف کے ساتھ پاس کرتے ہیں تو ان کے چَھٹی کلاس میں داخلہ لینے کے وقت ان کے پریشانیوں اور مایوسیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ مڈل اور ھائی پڑھنے کے لیے قریب میں کوئی ھائی اسکول نہیں ھے تو انہیں اپنا تعلیم جاری رکھنے کے لیے سریج گریشہ کے ھائی اسکول میں آکر داخلہ لینا پڑتا ہے۔ یہ گریشہ کا واحد ھائی سکول ھے ۔

لوپ اور باہڑی سے لے کر گَری ہینارو تیغاب کودہ جیسے دور کے طلباء پرائمری سے فارغ ہونے کے بعد انہیں اپنا تعلیم جاری رکھنے کے لیے سریج کے ھائی سکول میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ ان دور دراز علاقوں کے طلباء کے لیے سب سے بڑی پریشانی رہائش ہوتی ہے کیونکہ سو ڈیڑھ سو کلو میٹر دور کے طلباء سے روزانہ گھر آنا جانا نہیں ہوتا۔ اسکول میں انکے لیے ہاسٹل کی سہولت نہیں ہے۔ ھائی سکول سے پچاس سو کلو میٹر دور کے طلباء دکھ تکلیف برداشت کرکے سریج میں آکر پڑھتے ہیں چُھٹی کرنے کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرکے اپنے اپنے گھروں میں جاتے ہیں لیکن دور دراز علاقے سے آنے والے طلباء کے گھر سکول سے چار/پانچ گھنٹے کے فیصلہ پر واقع ہے، وہ اپنے گھروں میں نہیں جا سکتے ۔ ۔اس سنگین تعلیمی رکاوٹ کی وجہ سے گریشہ میں ساٹھ فیصد بچے نوے فیصد بچییاں پرائمری کے بعد اپنے تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ وہ آگئے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔جس طالب علم کو سریج کے بیس/تیس کلو میٹر کے علاقوں میں یعنی تابکو بابلی پوگی اور گواراست میں رشتہ دار ہیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں سے رہائش کی اپیل کرکے رہائش حاصل کرکے اپنے ایک بڑی پریشانی سے نمٹ سکتا ھے۔ جس کا سریج اور اسکے دوسرے قریبی علاقوں میں کوئی رشتہ دار یا جان پہچان لوگ نہیں ہیں اسکا رہائش کا مسئلہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک رکاوٹ بن جاتی ھے، تو اسے پڑھائی سے ہاتھ دھونے پر مجبور کرلیتا ھے۔

ھائی اسکول میں یہ بھی نہیں ھے جس کا ریائش اور داخلہ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ وہ آسانی سے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی سہولت سے فیض یاب ہوکر بس پڑاھائی جاری رکھتا ھے ۔ بلکہ انہیں اسکول میں اساتذہ کی کمی ، پینے کے لیے پانی نہ ملنا ، ،اسکول میں ٹوائلٹ کی سہولت نہ ہونا ، ۔ڈیسک، کرسی، کتابوں کی کمی اور دوسرے سینکڑوں مسئلے بھی درپیش ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے پورے علاقہ کا ھائی اسکول ایک ھے اس میں کلاس رومز ، ہاسٹل ،ٹیچرز سائنس لیب، پانی کا مسئلہ اساتذہ کی کمی کا مسئلہ کسی بھی صورت درپیش نہیں ہونا چاہئے تھا۔

۔یہی ایک ھائی اسکول نے گزشتہ دہائیوں سے بنا سہولت ہزاروں نوجوانوں کی زندگی کو چمن کا گہوارہ بنا دیا ۔ یہی تعلیم کی جاری مثبت رستے کو گزشتہ چار سالوں سے کسی کی نظر بد لگ چکی ہے۔ موجودہ حالت بلوچستان کی دیگر علاقوں کی طرح گریشہ کی تعلیمی نظام بھی دن بہ دن خستہ حالی کی طرف جارہی ھے۔ آج کے تعلیم کا نظام ہم گزشتہ آٹھ دس سالوں پہلے کے تعلیمی نظام سے کمپئر کیا جائے ہمیں اندازہ ہوگا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ہماری تعلیمی نظام کس طرح درہم برہم کا شکار ھےلیکن تعلیم یافتہ نوجون گریشہ میں اتنے الحمد للہ موجود ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ھے وہ اپنے تعلیم کے موجودہ خستہ حال نظام سے سنجیدہ نظر نہیں آتے ہیں، آج قابل طلباء کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے علاقے کے استادوں کے ساتھ اپنا تعلیمی نظام بحال کرناچاہئے ۔ لیکن آج تک ایسے مثبت سوچ نوجوان سامنے نہیں آیا جس نے ایسا قدم اٹھایا ھے جو قابل تعریف اور قابل داد ہو۔ دوسری بات یہ ھے وہاں کے لوگوں میں معاشرہ کے ترقی کا جذبہ رکھنےوالے لوگ بھی نظر نہیں آتے۔ جو اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرکے ایک قوم یا معاشرے کے مفاد کے لیے سنجیدگی سے سرگرم ہو ۔ وہاں کے لوگوں کی اکثریت معاشی ذریعہ کھیتی باڑی ہے، کچھ زمیندار اپنے ایک بچے کو پرائمری پاس کرنے کے بعد کوئٹہ کراچی یا تربت میں پڑھنے کے لئے بھیج کر مہینہ میں دس /بیس ہزار کا خرچ برداشت کرلیتا ھے۔ لیکن گھر میں اور بہت سے بچے بچیاں موجود ہوتی ہیں وہ پرائمری تعلیم حاصل کرنے تک محروم ہو رہے ہیں ان میں ایک بچہ کی اعلٰی تعلیم دینے سے معاشرہ قطعاً ترقی نہیں کر پاتے ۔دوسری ضروری باتوں میں سے ایک یہ ہے۔

وہاں کے لوگ اپنے زریعہ معاش کمانے کے لیے منڈیوں سے لاکھوں روپے قرض لے کر سوکھے مٹی پر امید رکھ کر اس پر فصل اُگا کر خرچ کرتے ہیں چاہے انہیں بعد میں نقصان اٹھانا پڑے ۔ لیکن وہ آدمی اپنے پھول جیسے بچے پر یہ امید نہیں رکھتے کہ ہمارے بچے پڑھ کر قوم کا مستقبل بدل سکتے ہیں، وہ پڑھ کر اچھے انسان بن جاتے ہیں اگر ان بچوں کے والدین کو یہ کہا جائے علاقے میں ایک اسکول کا افتتاح کرتے ہیں علاقے کے جو بچے پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے سے بچھڑ گئے ہیں ان کے پڑھانے کے لئے ایک ٹیچر رکھ کر اسکی تنخواہ ہر بچے کا والدیں ماہانہ فیس کے حساب سے ادا کیا جائے۔ تو بچوں کے والدیں غریبی کا رونا دھونا مچا کر کنارہ کشی کرتے ہیں۔

۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی زمیںنوں پر لاکھوں روپے ادھار لے کر خرچ خوشی سے کرتے ہیں مہینہ میں اسکے بچوں کو تین چار سو روپے میں پڑھائیں تو انہیں یہ عمل گوارہ نہیں لگتی، کوئی میر، وڈیرہ یا دوسرے بڑا سرمایہ کار انہیں یہ بات کہے شاید اسکی بات پر عمل کرتے ہیں لیکن آج تک کوئی بڑے نے یہ کہا ہی نہیں ھے کہ اپنے تعلیمی نظام کو خستہ حالی کی جانب دھکیلنے سے بچا کر اپنی مدد آپ بچوں کو پڑھائیں ۔ ایک اچھے معاشرہ کا قیام عمل میں لانے کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ھے۔ آج کے بچے کل کے معمار قوم ثابت ہوتے ہیں دوسری بات یہ ھے وہاں کے پرائمری سکولوں کی حالت اور استادوں کی غیر زمہ دارانہ رویہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ گزشتہ کچھ سالوں سے گریشہ کے کچھ اساتذہ کرام نے اسکولوں میں بچے کے پڑھانے کے فرض سے منہ موڑ کر ذاتی کاروبار کر رہے ہوتے ہیں ۔ استاتذہ اپنی پڑھانے کے فرض سے غافل ہوکر اپنے کاربارو میں مصروف ہیں، علاقے میں بعض ایسے استاد ہیں وہ سرکاری سطح سے تنخواہ اٹھاتے ہیں انہیں اپنے نوکریاں کا پتہ نہیں کونسے سکول میں ہیں ۔ یہ عمل بچوں کے ساتھ نا انصافی اور انکےساتھ بد نیتی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے زمہ دار ایماندار نیک اور پرخلوص قابل استادوں کا کردار انتہائی عظیم ہوتی ھے ۔ ہر معاشرے کے ترقی کا اسٹرنگ استادوں اور طلباء کے ہاتھ میں ہوتی ھے ۔ وہ چاہے جس طرف لے جانا چاہیں۔

گریشہ کے کچھ پرائمری اسکولوں کو سال دوہراز دس /بارہ میں ایک ہارڈ بلوچستان نامی تنظیم نے وہاں کے لوگوں سے اپنے مدد آپ کے تحت بنوانے کا حکم دیا تھا۔ بے چارے علاقے کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایک کچا کمرہ تعمیر کیا، پھر ہر علاقے کا ایک میٹرک/انٹر پاس شدہ نوجون پڑھانے کے لیے رکھ لیا، ٹیچر کی تنخواہ ہارڈ بلوچستان نامی تنظیم دیتا رہا اس نظام سے جو بچے دور دور تک پڑھنے جاتے تھے وہ پرائمری پاس کرنے تک سکھ کا سانس لے رہے تھے ۔ پھر اس تنظیم کے کارکنان نامعلوم افرادوں کے ہاتھوں سے ٹارگٹ کلنگ ہوگئے تنظیم ناکام ہو کر رہ گئی، بعد میں ٹیچروں کی تنخواہ بند ہو گئے، ٹیچر دو/ تین مہینے تک تنخواہ کی کہیں سے ملنے کی امید سے بچوں کو پڑھاتے رہے، آخر کار سرکاری غیر سرکاری یا لوگوں کی اپنی مدد سے استادوں کی تنخواہ نہ ملی تو وہ بغیر تنخواہ سے نہ پڑھا سکے علاقے کے لوگ بھی اس عمل سے سنجیدہ ہوکر اس پر کوئی خاص حل طلب بھی نہ کی گئی کہ اسکول غیر فعال ہونے سے بچ جائیں، بچوں کی تعلیم متاثر ہونے سے بچ کر جاری رہیں ۔ اسکے بعد سکول بند ہوگئے ان پرائمری سکولوں کی دیواریں بارش کی وجہ سے گر رہے ہیں، کھڑکیاں اور دروازے گر کر ٹوٹ چکے ہیں، چھتوں کی لیکج کی وجہ سے بارشوں سے چھت کی پانی سکول کے اندر ٹپکتی ہیں، تو اس وجہ سے دیواریں گرنے کےقریب ہیں۔ نہ پڑھانے کےلیے استاد نہ کہ اسکول کے کمرے قابل پڑھائی کا جگہ ھے۔ ۔جو سرکاری پرائمری سکولوں میں گزشتہ تیس چالیس سالوں سے بچے زیر تعلیم تھے ان سکولوں کے اساتذہ اسکولوں کے حاضری دینے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ مہینے کا تنخواہ لے کر اپنا کاروبار کر رہے ہیں، اپنے بچوں کو کوئٹہ کراچی لاہور فیصل آباد میں بھیج کرپڑھاتے ہیں۔ ان استادوں کی یہ عمل قوم دشمنی ھے۔ بلوچستان کی موجودہ تعلیم حالت کو دیکھ کر بچوں کے استادوں کو بچوں پر رحم کھا کر اپنی زمہ داری کو تیز کرنا چاہیے تھا۔ افسوس وہ اپنے معمولی فرض تک ادا نہیں کر رہے ہیں۔

موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ھے پڑھنے کے علاوہ غریب قوم کو آگے بڑھنے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ۔ اس جدید دور میں ہم تعلیمی غفلت سے باز نہ رہیں ورنہ آنے والے دور کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھیں گے۔ ۔گریشہ کے نیک ایماندار قوم دوست فرض نبھانے والے استادوں اور سینئر طلباء میر سردار سردار وڈیرے بڑے سرمایہ کاروں ایجوکیشن آفیسران سے دوسرے تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے گزارش ہیکہ اپنے موجودہ دور میں بچوں کی تعلیم سے دوری استادوں کی غیر زمہ داریاں کو قابو پانے کے لیے ایک مثبت حل نکالا جائے۔ تاکہ ہمارے قوم کے بچے اس جدید ترقی یافتہ دور میں کم سے کم بنیادی تعلیم حاصل کر پائیں ہم بحیثیت غریب قوم اپنے زندگی کے باقی سہولیات کو اپنے مدد آپ دیکھ رہے ہیں اپنے مدد آپ تعلیم کا نظام کو دیکھ سکتے ہیں ۔جن علاقوں میں ٹیچر کم اور طالب علم زیادہ ھے وہاں کے اسکول میں ایک اور پڑھے لکھے نوجوان ماہانہ فیس دے کر اپنے بچوں کی پڑھانے کی زمہ دار دیا جائے۔

گریشہ کے سردار میر وڈیرے باشعور نوجوانوں سے گزارش ھیکہ اپنے تعلیم کی جاری خستہ حال نظام اور اسکولوں کی بندش استادوں کی غفلت دور کرنے کے لیے ہر لحاظ حل نکالا جائے تاکہ ہمارے معصوم بچے علم کی روشنائی سے محروم نہ رہے۔ مزید تعلیم سے دوری بے شعوری کو پختہ کرنے کےعلاوہ کچھ نہیں ۔ معاشرے کی ترقی کی اسٹرنگ نوجوانوں کو مثبت راہ کی طرف موڑ نا ہے تاکہ ہم جہالت کی دلدل سے نکلنے سے کامیاب ہو جائیں۔

ہماری ایک غلطی یہ ھے ہم اپنے اپنے تمام سماجی اور قومی کام کو گذشتہ دہائیوں سے الیکشن کے نمائندہ کے سہارے پر چھوڑ کر مزیذ برباد کر چکے ہیں ۔ اپنےمسائل اپنی مدد آپ دیکھنے کا وقت اب آ چکا ھے۔ یہ سمجھنا چاہئے گذشتہ دہائیوں سے کسی انتظامیہ اور علاقائی نمائندوں نے کچھ نہ کیا تو اب انکے سہارے زندہ رہنا کم عقلی اور جہالت سے کم نہیں۔ علاقے کے جن جن علاقوں میں ہارڈ بلوچستان کی طرف سکول کھولے گئے تھے، بعد میں ناکامی کا شکار ہوگئے، ان میں سینکری ،اسپکنری، پتنکنری سہردف، گمبولہ، کے اسکول شامل ہیں ۔ ان اسکولوں کی بحالی کا حل علاقے کے لوگوں، با شعور نوجوانوں کو نکلنا چاہیئے۔

آخر میں میں اپنے علاقے کے تمام مکتبہ فکر اور قبائل کے لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ قبائل پرستی کی جہالت والی سوچ سے نکل کر خدارا ! قومی جذبہ کا سوچ پیدا کرکے اپنے تعلیمی نظام کو درست کرنے میں ہر ایک اپنا اپنا کردار ادا کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔