سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 23 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

302

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
آئی آگ مانگنے، گھر کی مالکن بن بیٹھی!

کہدا رمضان تو غریب ہونے کے علاوہ بھی بہت پیارا انسان ہے۔ وہ بزنجو صاحب کا سیاسی مرید ہے۔ بزنجو صاحب مکران بھر کا سیاسی پیشوا ہے۔ یہاں جس سیاسی بزرگ سے بھی ملو، وہ ایک ہی نشست میں، اپنی عام گپ شپ میں، بزنجو کے بے شمار اقتباسات، کتنے قصے اور کتنے اقوال سنا ڈالے گا۔ بلوچستان کے دور افتادہ اس گوشے کے گہرے سمندروں پہ جس شخص کو یاد کیا جاتا ہے، وہ غوث بخش ہے۔ (بابا، بلوچ سمندروں کا دیوتا ہے)۔

رمضان، بلوچستان کا غم کھاتا ہے، بلوچوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ ماہی گیروں کی آواز ہے وہ۔ اپنے مخصوص اور خوب صورت انداز میں بات کرتا ہے۔ میں ساحلِ بلوچستان کی فہم و فراست کی عظیم وسعتوں میں سے بہت کم موتی چن سکا ہوں۔

آئیے آپ بھی کہدا رمضان کو سنیے:
”بی بی سی والا آیا تھا۔ اس نے ہم سے کہا، ”جہالت بری چیز ہوتی ہے۔ ظلم بہت بڑی نعمت ہے۔ تم لوگ بچوں کو کیوں نہیں پڑھاتے ہو؟“۔ میں نے کہا۔ ”اڑے، تم خود پورا نہی (نہیں) ہے، مکمل نہی ہے۔ جاؤ دوبارہ پڑھو، بالکل اَن پڑھ ہو۔ آٹھ بچے ہیں میرے، مہنگائی ہے، سب بے روزگار ہیں، کشتی یہی ایک ہے میری، کہاں سے پڑھاؤں گا؟“۔

فلسفی رمضان نے بلوچی کی یہ ضرب المثل بھی ہمیں بتائی کہ ”غریب ظالم ہو تو اس کا گھر جلے گا۔ حاکم ظالم ہو تو اس کا ملک جل جائے گا“۔ (ملک کا جل جانا بھلا اور کس کو کہتے ہیں!!)۔ کہدا رمضان سے ہم نے اس کی کشتی مانگی اور اس کے بیٹے نے ہمیں کشتی پر بٹھا کر دو گھنٹے تک سمندر کی سیر کرائی۔ میں نے جب اس نوجوان سے ہاتھ ملایا تو دیکھا کہ اس کا ہاتھ پتھر کی طرح سخت تھا، مجھے اپنے ہاتھ کی نرمی نازکی پہ شرم آئی۔ نیلا گہرا سمندر، پانی یخ سرد، لہر (چول) کے چھنٹے ہونٹ پر پڑیں اور آپ زبان ہونٹ پر پھیریں تو اس کی نمکینی زبان کو جیسے کاٹ ڈالتی ہے۔

وہاں سمندر سے ساحل پہ ایک خوب صورت عمارت نظر آتی تھی۔ یہ تھا ڈی سی ریسٹ ہاؤس۔ (گوادر میں ڈپٹی کمشنر بیٹھتا ہے۔ گوادر جولائی 1977ء میں اس وقت ضلع بنا جب مکران کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ یہ دو سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے: گوادر اور پسنی۔ گوادر کے سب ڈویژن میں تحصیل گوادر، تحصیل جیوانی، اور سب تحصیل سنٹ سر شامل ہیں جب کہ پسنی سب ڈویژن میں تحصیل پسنی، اور اورماڑہ شامل ہیں)۔ ڈی سی ریسٹ ہاؤس کا مقامی نام ”چار پادگ“ (چار ٹانگوں والا) ہے۔ یہ واقعتاً چار ستونوں پر کھڑا ہے۔ یہ محل مسقط کے سلطان کے والی کا گھر ہوا کرتا تھا۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ سید سلطان (احمد بن سید کا پانچواں بیٹا) اپنے بھائی سے جھگڑ پڑا اور اس سے شکست کھا کر بلوچستان بہ مقام زیک کولواہ میرواڑیوں کے قلعہ بند گاؤں بھاگ آیا۔ یہاں سے میر داد کریم میرواڑی اسے اپنے ساتھ مکران سے خاران لایا جہاں سے نوشیروانی قبیلہ کا سردار میر جہانگیر اس کے ساتھ ہوگیا۔ اور وہ قلات میں خان نصیر خان اول کے دربار میں حاضر ہوئے اور بھائی کے خلاف عسکری مدد مانگی۔ خان نے اومان کے تخت کے حصول کے لیے فوجی مدد دینے کی اس کی درخواست تو مسترد کر دی البتہ بلوچستان میں اس کی عارضی جلا وطنی کے عرصے کے لیے گوادر اور اس کی بندرگاہ اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے عارضی طور پر دے دی۔ خان نے گوادر کے ریونیو میں سے قلات کا مقررہ حصہ اسے دے دیا تا کہ وہ اپنا گزارہ کرتا رہے۔ کہتے ہیں کہ ریونیو 7000 ہزار ڈالر کا وصول ہوتا تھا، جسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ 3000 ڈالر گچکی نواب اپنی جیب میں ڈالتا تھا، 3000 قلات کا حصہ مسقط کے والی کو ملتا تھا، اور بقیہ 1000 ڈالر جو کہ ریونیو جمع کرنے کے لیے خرچہ کے لیے تھا،وہ بھی مسقط کا یہی پناہ گزیں شہزادہ وصول کرتا تھا۔ وہی شہزادہ یہاں کے حکام کا تقرر کرتا تھا۔ یہ حضرت بالآخر 13 برس بعد 1997ء میں مسقط کی سلطنت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سابقہ پناہ گزیں اور حال کے اومان کے حکمران نے گوادر کو ایک Dependency(غیر آزاد علاقہ) بنا دیا۔ اس نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا، ایک فوجی گیریزن متعین کی اور سیف بن علی نامی ایک شخص کو یہاں کے لیے والی مقرر کیا۔ یہ ”چار پادگ“ اسی والی صاحب کا دولت خانہ ہوا کرتا تھا۔ مانگے کا دولت خانہ۔

یہ والی موالی بھی دلچسپ لوگ ہوتے ہیں۔ دوسرے ملک میں ایک پناہ گزین شہزادے کا والی کس قدر حقیر ہوسکتا ہے…… آئیے ظہور شاہ ہاشمی کی زبانی سنتے ہیں؛ ”والی سب سے بڑا سمگلر ہے۔ علاقے کے لوگ اناج کے ایک ایک دانے کو ترستے ہیں، گھی علاقے میں نایاب ہے…… مگر یہ والی چوروں سے در پردہ میل جول رکھتا ہے، چوری چھپے غلہ، گھی اور شکر دوسرے ملکوں کو بھجواتا ہے۔ یہی چور اور سمگلر دن کے اجالے میں والی کے دربار میں متمکن ہوتے ہیں، اس کے احباب و ندیم ہیں۔ علاقے میں جو کچھ ہو رہا ہے سچ جھوٹ سب والی تک پہنچاتے ہیں اور اپنی جگہ بناتے ہیں۔ والی ان کی باتیں سن کر یقین کر لیتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سرکار دربار میں عام لوگوں کی جھوٹی، سچی حمایت کرتے ہیں اور رشوت کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ والی کی عیاشی کرنے کے لیے اس کے دلال بھی بنتے ہیں“۔ (1) (ویسے بائی دی وے، اب بھی کچھ خاص نہیں بدلا سوائے ناموں کے)۔

واضح رہے کہ یہ سید سلطان بن احمد بن سید 1804 میں مرگیا۔ مگر گوادر مسقط ہی کے ساتھ رہا۔ ان کے بیٹے کی حکمرانی کے دوران سر باز کے بلیدیوں کے سردار دوستین نے گوادر پر قبضہ کیا لیکن مسقط سے بھیجی گئی فوج نے گوادر کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس طرح صرف شہر و بندرگاہ ہی نہیں بلکہ پورا علاقہ مسقط کا تھا، اس میں گوادر ساحل کا مشرق اور مغرب، اور علاقے کی ریتلی پٹی شامل ہیں جہاں سے جبل مہدی، کوہِ درامب اور دیگر چھوٹے چھوٹے پہاڑ ابھرتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے قابلِ کاشت دامن (بلوچی میں ”نگور“) بھی اسی کے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔